|

وقتِ اشاعت :   October 4 – 2017

درجن بھر سے زائد وفاقی وزراء نے احتساب عدالت کے دروازے پر اپنی بے عزتی کروائی ۔یہ تمام وزراء نوا زشریف کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے احتساب عدالت پہنچے ہوئے تھے۔ ان کا کارواں چالیس سرکاری گاڑیوں پر مشتمل تھا جن کی قیادت نا اہل وزیراعظم کررہے تھے۔ 

حفاظت پر مامور رینجرز نے تمام وزراء کو اندر جانے سے روک دیا۔ اس سے قبل عدالت نے وزراء اور دیگر مسلم لیگی رہنماؤں کو یہ تاکید کی تھی کہ وہ احتساب عدالت نہ آئیں۔ ظاہر ہے اتنے بڑے ہجوم اور وہ بھی وفاقی وزراء کی فوج ظفر موج کا مقصد احتساب عدالت کو مرعوب کرنا تھا چنانچہ ان کو رینجرز نے عدالت کے اندر جانے سے روک دیا۔ 

اس پر سب سے زیادہ آگ بگولہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال تھے جن کو یہ شکات تھی کہ وہ متعلقہ محکمہ کے وزیر ہیں اور ان کے ماتحت ان کی حکم عدولی کررہے ہیں ۔انہوں نے میڈیا کے سامنے کہا کہ میں کٹھ پتلی وزیر داخلہ رہنا پسند نہیں کروں گا میں استعفیٰ دوں گا ۔ انہوں نے اس تمام معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا کہ کیوں وزیر داخلہ اور دوسرے وفاقی وزراء کو احتساب عدالت کے اندر جانے سے روک دیا گیا ۔

تاہم انہوں نے اپنے عہدے استعفیٰ نہیں دیا کیونکہ ان کو یہ منصب مشکل سے ملا ہے اور نواز شریف کے علاوہ ملک کا کوئی دوسرا شخص ان کواس منصب پر فائز نہیں کر سکتا۔ موصوف کونواز شریف کی گزشتہ حکومت میں بھی وزیر بنایا گیا تھا،2013ء کے انتخابات میں بھی ان کو جتایا اور وزیر بنا یا گیا۔اگر نواز شریف سیاسی تاریخ سے غائب ہوجائیں گے تو ان کی ذاتی حیثیت صرف ایک استاد کی بیشک رہے گی مگر سیاسی اور قومی رہنماء کی نہیں ۔

لہذا یہ ممکن ہے کہ ان کی دھمکی کا مقصد صرف اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا تھااور بس ۔ بعض ماہرین کی رائے میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو مجرم گردانا ہے اور بقیہ عدالتیں ان کو اور ان کے خاندان کے افراد کو جیل اور جرمانہ کی سزائیں سنائیں گیں ۔ 

سپریم کورٹ نے ان پر جرم ثابت کردیا ہے لیکن مسلم لیگ بضد ہے کہ نا اہل فرد کو مسلم لیگ کا صدر بنایاجائے گا ۔ اس کے لئے مسلم لیگ نے ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے بعض سینٹرو ں کے ووٹ خریدے اوردونوں ایوانوں سے قانون پاس کروایا کہ ایک نا اہل شخص پارٹی کا صدر بن سکتا ہے ۔

یہ قانون قومی اسمبلی میں شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے دوران پاس کیا گیا اب یہ قانون بن گیا ہے اور صدر پاکستان نے اس پرلازماً دستخط کرنے تھے سو اس نے کردئیے کیونکہ وہ صدر پاکستان سے زیادہ نواز شریف کے ایک ادنیٰ سے کارکن ہیں اور ان کو نواز شریف کی خدمت کرنے کا ایک اچھا موقع ملا ہے جس پر وہ زیادہ خوشی محسوس کریں گے ۔ 

عمومی طورپر یہ باور کیاجاتا ہے کہ مسلم لیگ اوپری سطح پر چاپلوس افراد کا ایک ٹولہ ہے ۔ یہ کسی بھی معنی میں ایک باضابطہ سیاسی جماعت نہیں بن سکی ، اس کی سیاست صرف ایک فرد واحد کے گرد گھومتی ہے اس لیے پوری پارلیمان اس بات کی کوشش میں لگی رہی کہ نواز شریف کو نا اہل ہونے کے باوجود زندہ رکھا جائے اور آئین میں ترمیم کرکے اس کو پارٹی کا صدر بر قرار رکھا جائے۔ 

اب سیاسی پارٹیاں اس قانون کو عدالت میں چیلنج کریں گی کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وزیراعظم کے عہدے کے لئے نا اہل ہونے والا شخص مسلم لیگ اور حکمران پارٹی کا صدر رہے ۔موجودہ وقت میں ملک ایک بہت بڑے بحران سے گزر رہا ہے اور سیاسی رہنماؤں نے ملک کو اس بڑے بحران سے نکالنے کے لئے کسی سنجیدہ کوشش کا مظاہرہ نہیں کیا، اس لیے دیگر ادارے پریشان ہیں اوراس بحران سے نکلنے کی راہ تلاش کررہے ہیں ۔

نواز شریف جو اپنے آپ کو ملک کا سب سے بڑا محب وطن تصور کرتے ہیں وہ اس بحران کو طول دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی ان کوششوں کو بلیک میلنگ کا نام دیا جا سکتا ہے ، وہ ہر صورت اور ہر قیمت پر اقتدار میں واپس آنا چاہتے ہیں ۔ 

ان کی پارٹی صدارت میں دلچسپی صرف انتخابات کے لئے ہے جو وہ ہر قیمت پر جیتنا چاہتے ہیں ۔لیکن حالات بدل بھی سکتے ہیں ہوسکتا ہے نواز شریف کی یہ خواہش اب کبھی پوری نہ ہو۔