|

وقتِ اشاعت :   October 6 – 2017

کوئٹہ: بلوچستان کے ضلع جھل مگسی کی ایک درگاہ میں خودکش حملے کے نتیجے میں چاربچوں سمیت کم از کم 20افراد جاں بحق اور تیس سے زائد زخمی ہوگئے۔ خودکش حملہ آور نے درگاہ کے مرکزی دروازے پر پولیس کی جانب سے روکنے پر خود کو اڑایا۔ جاں بحق ہونیوالوں میں باپ بیٹا اور دو بھائی بھی شامل ہیں۔ 

ایس ایس پی جھل مگسی محمد اقبال کے مطابق دھماکا بدھ کی شام پانچ بجکر پچاس منٹ پر جھل مگسی کے ضلعی ہیڈکوارٹر گنداواہ سے تقریبا پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع درگاہ فتح پور کے مرکزی داخلی دروازے پر ہوا۔ درگاہ کی سیکورٹی پر تعینات پولیس اہلکار قطار میں کھڑے افراد کی تلاشی لے رہے تھے اس دوران ایک مشتبہ شخص تلاشی دیئے بغیر درگاہ کی طرف بھاگا۔ 

پولیس اہلکار نے تعاقب کرکے اسے پکڑنے کی کوشش کی تو مشتبہ شخص نے جسم سے بندھی خودکش جیکٹ کے ذریعے خود کو دھماکے سے اڑادیا۔ ایس ایس پی نے بتایا کہ ہر اسلامی مہینے کی سات اور پندرہ تاریخ کو سائیں رکھیل شاہ اور سائیں چیزل شاہ کے عرس کی تقاریب ہوتی ہیں۔ 

حملے کے وقت درگاہ میں سائیں رکھیل شاہ کے عرس کی تقریب جاری تھی اور اس میں جھل مگسی، قریبی اضلاع اور سندھ کے مختلف علاقوں سے آنیوالے سینکڑوں افراد شریک تھے۔ خودکش حملہ آور رش والی جگہ پر جانا چاہتا تھا تاہم کامیاب نہ ہوسکا۔ ایس ایس پی پولیس نے مزید بتایا کہ دھماکے میں پولیس سپاہی بہار خان لاشاری بھی شہید ہوا جبکہ موقع پر موجود اسسٹنٹ سب انسپکٹر کریم لاشاری کو شدید زخم آئے ۔

عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کے بعد درگاہ کے باہر تباہی پھیل گئی۔ انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑ گئے۔ زخمی افراد مدد کیلئے پکارتے رہے۔ دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی اور اس کے فوری بعد درگاہ اوراس کے باہر خوف و ہراس کے باعث بھگدڑ مچ گئی۔ اطلاع ملتے ہی پولیس کی اضافی نفری، ایف سی اور لیویز کے اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔ لاشوں اور زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال گنداواہ پہنچایا گیا۔ 

ہسپتال کی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر رخسانہ مگسی کے مطابق 19افراد کی لاشیں اور دو خواتین سمیت33 زخمیوں کو سول گنداواہ ہسپتال لایا گیا ۔ ہسپتال میں تمام جاں بحق افراد کی شناخت ہوگئی۔جاں بحق ہونیوالوں میں باپ بیٹا، دو سگے بھائی اور چار بچے بھی شامل ہیں۔

ان میں دو کا تعلق نصیرآباد، دو کا تعلق تحصیل لہڑی ضلع سبی جبکہ ایک کا تعلق اوستہ محمد جعفرآباد سے اور باقی 14افراد جھل مگسی کے مختلف علاقوں رہائشی تھے ۔ ایم ایس سول ہسپتال گنداواہ نے مزید بتایا کہ پندرہ کے قریب زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے انہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد جیکب آباد، لاڑکانہ اور شہداد کوٹ روانہ کردیا گیا۔ دھماکے کی اطلاع ملتے ہی شہریوں کی بڑی تعداد ہسپتال پہنچی اور اپنے پیاروں کو تلاش کرتے رہے۔

سماجی کارکن سجاد شاہ نے بتایا کہ ہسپتال میں صرف دو ڈاکٹر موجود تھے۔ جگہ اور سہولیات بھی ناکافی ہیں۔ ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے علاوہ ہسپتال میں علاج کی کوئی سہولت موجود نہیں اس لئے بیشتر زخمیوں کو رشتہ دار اپنی مدد آپ کے تحت سندھ کے قریبی اضلاع کے ہسپتال لے گئے۔ 

ضلع میں صرف ایک سرکاری ایمبولنس موجود ہے وہ بھی استعمال کے قابل نہیں۔ کمشنر نصیرآباد ڈویژن اور ڈی آئی جی نصیرآباد ریجن زخمیوں کے علاج کی نگرانی کیلئے رات گئے لاڑکانہ روانہ ہوگئے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے سندھ کے وزیر صحت سے رابطہ کرکے ان سے سندھ میں زیر علاج زخمیوں کو بہتر علاج و معالجہ کی سہولیات فراہم کرنے کی درخواست کی۔ 

پولیس حکام کے مطابق درگاہ فتح پور کی حفاظت پر چار پولیس اہلکار مستقل تعینات ہوتے ہیں جبکہ عرس کے موقع پر مجموعی طور پر 48 اہلکار موجود ہوتے ہیں۔ دھماکے کے وقت کتنے اہلکار موجود تھے یہ معلوم نہیں ہوسکا۔ 

درگاہ کی تین چار دیواریاں ہیں۔ زخمی پولیس اہلکار کریم لاشاری نے بتایا کہ پہلی چار دیواری میں داخلے کیلئے بنائے گئے مرکزی دروازے پر تلاشی کے دوران خود کو دھماکے سے اڑانے والے شخص نے نارنجی رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ 

پولیس حکام نے بتایا ہے کہ خودکش حملہ آور کے اعضاء میں سے صرف جھلسی ہوئی ٹانگیں ملی ہیں جو تحویل میں لے لی گئیں ہیں۔ خودکش حملہ آور کی شناخت کیلئے اعضاء کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائیگا۔ 

ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس نصیرآباد ریجن شرجیل کھرل کے مطابق دھماکے کی تحقیقات کیلئے تفتیشی ٹیمیں تشکیل دی جارہی ہیں۔ ضرورت پڑی تو کوئٹہ سے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی۔

یاد رہے کہ کوئٹہ سے تقریبا تین سو کلو میٹر جنوب میں واقع اسی درگاہ میں 19مارچ 2005 کو بھی بم دھماکا ہوا تھا جس کے نتیجے میں تیس کے لگ بھگ افراد جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی ہوئے تھے۔