|

وقتِ اشاعت :   October 16 – 2017

صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف اپنی حکمت عملی کا اعلان کردیا جس کا مقصد ایران کے لئے زمین تنگ کرنا ہے ۔ صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی تصدیق سے انکار کررہا ہے کہ ایران بین الاقوامی جوہری معاہدے کی پاسداری کررہا ہے اور اس پر عمل کر رہا ہے۔

اس کیمطابق اب امریکی کانگریس کو یہ فیصلہ 60دنوں کے اندر کرنا ہے کہ ایران پر امریکی معاشی اور دیگر پابندیاں دوبارہ لگائی جائیں یا نہیں۔ ابھی تک اس کے آثار نہیں ہیں کہ امریکی کانگریس صدر ٹرمپ کی خواہشات پر پورا اتر ے گا اور ایران پر دوبارہ معاشی اور دیگر پابندیاں لگا ئے گا۔ وجہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ ایک متنازعہ شخصیت ہیں اور ہمیشہ شخصی اور ذاتی فیصلے کرتے ہیں ، پارٹی رہنماؤں خصوصاً کانگریس کے اراکین سے مشورہ نہیں کرتے ۔

اس طرح موصوف ہرپہلو سے امریکی تاریخ کے غیر مقبول ترین شخصیت بلکہ صدر ہیں۔ اپنے بیان میں صدر ٹرمپ نے ایران پر سنگین الزامات لگائے کہ عراق ‘ شام ‘ لبنان ‘ اور خطے کے دوسرے ممالک میں ایرانی مسلح دستے اور انقلابی گارڈز موجود ہیں اور با قاعدہ جنگ میں حصہ لے رہے ہیں ۔

صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ایران کے میزائل نظام سے امریکا اور اس کے خطے میں موجود افواج کو خطرات لاحق ہیں بلکہ اسرائیل کو بھی ایرانی فوجی قوت سے خطرہ ہے ۔ انہوں نے یہ واضح اعلان کیا کہ وہ ایران کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس تازہ بیان کے بعد امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا جس سے خطے کے امن کو خطرات لاحق ہوں گے تاہم امید ہے ایران ہمیشہ کی طرح صبر اور برد باری کا مظاہرہ کرے گا اور خطے کی کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب نہیں بنے گا۔

ایران امریکی صدر کے خواہشات کے برعکس خطے میں امن کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا اس امر کے باوجود کہ امریکا ، ایران کے خلاف اشتعال انگیزی کی کارروائیاں کر سکتا ہے۔ ایران ایک بہت ہی بڑا میزائل طاقت بن کر ابھرا ہے۔

حالیہ دنوں میں ایران نے دور مار میزائل سے شام کے اندر ایک ہدف کو نشانہ بنایا جو کامیاب رہا ۔اس طرح ایران نے اپنے میزائل قوت کا مظاہرہ کیا ۔اگر خطے میں جنگ چھڑ گئی تو یہ دست بدست جنگ نہیں ہوگی بلکہ یہ میزائلوں کی جنگ ہوگی ۔امریکا ایران کے فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کی کوشش کرے گا جبکہ ایران گلف میں متعین امریکی افواج، ان کے اڈوں اور بحری بیڑہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کرے گا غرضیکہ دونوں طرف سے زبردست قسم کی جنگ ہوگی۔

ادھر ایران کیساتھ جوہری معاہدہ پر دستخط کرنے والے دوسرے ممالک روس‘ چین ‘ یورپی یونین سب کا خیال ہے کہ ایران نے جوہری معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں کی اور وہ امریکی صدر کے موقف کے حامی نہیں ہیں بلکہ شدید مخالف ہیں اور ٹرمپ پالیسی کو خطے کے امن کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں ۔

بہر حال کشیدگی کا مرکز ساحل مکران ہوگا جہاں پر امریکا کا بحری بیڑہ موجود ہے اور ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے لئے تیار ہے۔ اس طرح اگرجنگ چھڑی تو یہ ساحل مکران پر واقع آبنائے ہرمز پر وہاں ہوگی۔ اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ عرب ناٹو ‘ سعودی عرب کی سرپرستی میں 41ممالک کا فوجی اتحاد اس میں حصہ نہ لے۔

پاکستان اس اتحاد کا حصہ ہے اگر وہ اتحاد ایران پر حملہ آور ہوتا ہے تو ایران پاکستان کو اپنا مخالف فریق سمجھے گا تاوقتیکہ پاکستان اس سعودی فوجی اتحاد سے باقاعدہ طورپر الگ نہ ہوجائے البتہ سب سے خوفناک جنگ ساحل مکران پر کنٹرول کیلئے لڑی جائے گی جہاں سے دنیا کا چالیس فیصد تیل گزرتا ہے ۔

پاکستان کے مفاد میں ہے کہ وہ اس لڑائی میں کسی فریق کا ساتھ نہ دے تاکہ جنگ کی تباہی ملکی سرحدوں سے دور رہے۔ اور یہ کہ ساحل مکران دو حصوں میں ہے ۔ 1800کلو میٹر طویل ساحل مکران کی پٹی ایرانی بلوچستان میں ہے اور بقیہ 1200کلو میٹر ساحلی پٹی پاکستان میں ۔ایسی صورت میں یہ کمال سفارت کاری ہوگی کہ جنگ کی ہولناکیوں سے خود کوالگ تھلگ رکھا جاسکے ۔