اسلام آباد،کراچی: لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے میں جہاں انتظامیہ بے بس ہے وہاں پارلیمان کی ہیومن رائٹس کمیٹی بھی بے کس ہے۔ اس میں ضرورت اس بات کی ہے کہ بے بس اور بے کس دونوں ہاتھ ملا کر ان طاقتوروں کے ہاتھ روکنے کی کوشش کریں جو لاپتہ افراد کے معاملے میں ملوث ہیں۔
یہ بات سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کراچی میں سینیٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کی میٹنگ کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ سینیٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کا اجلاس کراچی میں ہوا۔ سینیٹر نسرین جلیل، سینیٹر فرحت اللہ بابر، سینیٹر نثار محمد خان، آئی جی سندھ پولیس، ڈی جی رینجرز اور ہوم سیکریٹری نے اجلاس میں شرکت کی۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ہیومن رائٹس کمیٹی گزشتہ سال ستمبر میں بھی کراچی آئی تھی اور لاپتہ افراد کی بازیابی اور اس میں ملوث لوگوں کی نشاندہی کے بارے میں کچھ سفارشات بھی مرتب کی تھیں۔
آج ایک سال بعد کمیٹی اس لئے کراچی آئی تھی کہ موقع پر موجود لاپتہ افراد کے سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کی گئی سفارشات پر عملدرآمد تو درکنار اس عرصے میں مزید درجنوں افراد لاپتہ ہو گئے ہیں اور انتظامیہ کے پاس کوئی معقول وضاحت نہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صرف گزشتہ سال کے دوران مزید لاپتہ ہونے والے افراد کی فہرست بھی پیش کی۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ ان لا پتہ افراد کے بارے میں مکمل معلومات کمیٹی کو دی جائیں۔ کمیٹی کی چیئرپرسن نسرین جلیل نے بھی ایک اور لاپتہ افراد کی لسٹ متعلقہ حکام کے حوالے کی۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے دوران مزید افراد کا لاپتہ ہونا گویا یہ پارلیمان کے لئے ایک پیغام ہے کہ وہ اس غلطی فہمی میں نہ رہیں کہ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ بالادست کوئی اور ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اس میں نہ تو ملوث افراد کی نشاندہی کی گئی اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی۔
انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ کچھ عرصہ قبل دوران حراست ایک سیاسی کارکن آفتاب احمد کے انتقال کی انکوائری میں بھی کوئی پیش رفت سامنے نہ آسکی اس لئے کہ متعلقہ محکمے کے نمائندے نے کہا کہ ان کی حال ہی میں تعیناتی ہوئی ہے اور وہ اس معاملے میں لاعلم ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی تھی کہ آفتاب احمد کی دوران حراست موت کی تحقیقات کسی اور محکمے سے کی جائے۔ اس محکمے سے نہ کی جائے جن کی تحویل میں آفتاب احمد کی دوران حراست موت واقع ہوئی تھی۔
لاپتہ افراد کے معاملے میں انتظامیہ اور پارلیمان بے بس ہیں ، فرحت اللہ بابر
وقتِ اشاعت : October 18 – 2017