ابتدائی اطلاعات کے مطابق کرم ایجنسی میں ایک گاڑی پر ڈرون حملہ کیا گیا جس میں ایک افغان کمانڈر ابو بکر سمیت بیس افراد ہلاک ہوئے۔ علاقے کے پولیٹیکل ایجنٹ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ گاڑی افغان سرحد سے چھ میل اِس طرف پاکستانی علاقے میں تھی ۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کی مسلح افواج نے ایک امریکی اورکنیڈین فیملی کو طالبان اور خصوصاً حقانی نیٹ ورک کے چنگل سے آزاد کرایا تھا جس کے بعد وہ خیریت سے اپنے گھر کینڈا پہنچ گئے ۔ اس واقعہ کے بعد یہ تاثر عام ہوگیا تھا کہ پاک امریکا تعلقات پر خوشگوار اثر پڑے گا لیکن چند ہی روز بعد کرم ایجنسی پر زبردست ڈرون حملہ کیا گیا۔
پہلے اطلاعات تھیں کہ اس ڈرون حملے میں صرف پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں ان میں ایک شدت پسند کمانڈر بھی تھا لیکن بعد کی اطلاعات کے مطابق مشکوک مکان پر چھ میزائل داغے گئے جس سے وہ مکمل طورپر تباہ ہو گیا ۔
اس ڈرون حملے کے بعد امریکی جاسوس طیاروں نے علاقے پر پرواز کی اور حالات کا جائزہ لیا شاید امریکی حکام کو کسی رد عمل کا خطرہ تھا لیکن ایسی کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں، ڈرون حملے کے بعد امدادی کارروائیاں بھی کی گئیں۔
دوسری جانب افغان جنگی طیاروں نے بھی اس سے ملحقہ علاقوں پر بمباری کی ،یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ بمباری کہاں ہوئی شاید وہ افغانستان کا اپنا علاقہ ہے جہاں پر افغان طیاروں نے بمباری کی۔
ابھی تک پاکستان کی طرف سے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی سرکاری اہلکار نے اس پر کوئی تبصرہ کیا ہے ۔لیکن یہ بات طے ہے کہ امریکا کے تیور اچھے نظر نہیں آرہے، وہ اس قسم کی کارراوئیاں جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کررہا ہے جن کا مطلب پاکستان اور اس کی حکومت کو دباؤ میں لانا ہے ۔
اس ڈرون حملے کے بعد یقیناً افغان اہلکار خوش ہوں گے کہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے خصوصاً اس بات پر کہ یہ حملہ پاکستان کے اندر کیا گیا جس میں بیس ہلاکتوں کی اطلاع ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس میں عام شہری کتنے تھے اور جنگجو کتنے تھے ، ان کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے تھایا طالبان کے کسی اور گروپ سے ۔
ایک بات تو واضح ہے کہ ایسے حملوں سے دونوں ممالک کے تعلقات پر اچھے اثرات نہیں پڑیں گے اس سے زیادہ تلخی ‘ تناؤ اور غم و غصہ کا ماحول پیدا ہوگا ۔یہ حملہ اس وقت ہوا جب مسقط میں افغانستان پر چار ملکی کانفرنس ہورہی تھی جس میں افغان مسئلے کا حل تلاش کرنا تھا ابھی تک اس میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی کہ امریکانے کرم ایجنسی پر ڈرون حملہ کردیا۔
اس سے قبل ایک حملہ ہنگو ضلع میں کیا گیا تھا جہاں پر حقانی نیٹ ورک کا کمانڈر مارا گیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب اس تلخی میں اضافہ ہوگا ۔ ڈرون حملوں کی کامیابی کے بعد امریکا اس کا استعمال زیادہ کرسکتا ہے بلکہ وہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں زیادہ شدت کے ساتھ فضائی جنگ لڑے گا تاکہ افغان علاقے محفوظ ہوں اور جنگجو ان سرحدی علاقوں کو استعمال نہ کر سکیں ۔
دوسری طرف امریکا اور افغانستان نے پاکستان کے اس پیش کش کا کوئی جواب نہیں دیا کہ علاقے میں دونوں ممالک مشترکہ فوجی کارروائیاں کریں۔ اس تجویز پر امریکا اور افغانستان نے سردمہری کا مظاہرہ کیا اور کوئی مثبت جواب نہیں دیا ۔
تاہم حکومت پاکستان پر یہ لازم ہے کہ وہ سفارتی کوششیں جاری رکھے خصوصاً امریکا اور افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے تاکہ سرحد پر کشیدگی میں کمی آئے اور امریکا کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ زیادہ شدت کے ساتھ پاکستان کے اندر خوفناک کارروائیاں کرے ۔
یہ ڈرون حملہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہے حکومت اور عوام اس کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ امریکا یا کسی دوسرے ملک کو پاکستان کے اندر کارروائی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے ۔ حکومت پاکستان کو چائیے کہ وہ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں اٹھائے اور بین الاقوامی برادری کی امداد طلب کرے تاکہ اس قسم کے ڈرون حملے دوبارہ نہ ہوں۔
اگر اس کو آج نہ روکا گیا تو کل کودوسرے ممالک بھی پاکستان کے خلاف اس قسم کی کارروائیاں کریں گے جس سے خطے میں جنگ کے خطرات میں اضافہ ہوگابلکہ یہ جنگ اس وقت ضرورچِھڑے گی جس وقت حکومت پاکستان نے مزاحمت کا فیصلہ کیا یا جوابی کارروائی کی ۔