|

وقتِ اشاعت :   October 20 – 2017

گزشتہ روز دہشت گردوں نے ایک بار پھر سیکورٹی اہلکاروں کونشانہ بنایا جس میں ایک شہری سمیت 8 پولیس اہلکار ہلاک اور بیس سے زائد زخمی ہوئے ۔ اہلکاروں کا تعلق بلوچستان کانسٹیبلری اور آر آرجی گروپ سے تھا ۔ یہ حملہ خودکش تھا اور ابھی تک کسی گروپ نے اس کی ذمہ دار ی قبول نہیں کی ہے۔ 

خودکش بمبار گاڑی میں سوار تھا جس میں 70سے 80کلو گرام بارودموجود تھا بلکہ اس میں ’’ سی فور‘‘ بارود استعمال کیا گیا جس کے پھٹنے کے بعد آگ بھی لگ جاتی ہے ۔ ظاہرہے یہ سارا کام پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیااور ’’پکی اطلاع‘‘ پر دہشت گردوں نے کارروائی کی ۔

اس حملے میں دو موٹر سائیکلوں ‘ ایک ٹریکٹر کو بھی نقصان پہنچا ۔ یقیناً دہشت گردوں کا یہ حملہ چالاکی سے تیار کیا گیا تھا جس کا مقصد سیکورٹی افواج کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا تھا ۔ 

بعض افراد کا خیال ہے کہ اس قسم کے دہشت گردی کے خوفناک منصوبے سرحد پار تیار کیے جاتے ہیں تاہم ابھی تک دہشت گرد سے متعلق کوئی معلومات حاصل نہیں ہوئیں ، نہ ہی اس کے اعضاء ملے ہیں لیکن تفتیشی عمل ابھی جاری ہے ۔ 

شاید اگلے چند روز میں مزید شواہد سامنے آئیں اور مزید تفصیلات دستیاب ہوں، تاہم یہ خودکش حملہ پاکستان کی سلامتی پر حملہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس حملے نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کا بنیادی نشانہ ہے اور دہشت گرد پاکستان کے اندر اپنی کارروائیاں تیز کرتے نظر آرہے ہیں ۔

گنداوا کے مزار پر حملے کے بعد دہشت گردی کا یہ ایک بڑا حملہ ہے جس کا مقصد ملک میں خوف و ہراس پیدا کرنا اور دہشت گرد ی کے خلاف جنگ کو متاثر کرنا ہے ۔ ان حالات میں چائیے کہ اعلیٰ سیکورٹی ادارے وہ تمام اقدامات اٹھائیں جس سے ملک کا دفاع زیادہ مضبوط ہو اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے ۔ 

ہمارا بنیادی موقف ہے کہ لاکھوں نا معلوم افراد کی موجودگی میں سیکورٹی کا نظام موثر نہیں ہوسکتا ۔ خصوصاً ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی ‘ اسمگل شدہ اور جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑیاں ملک کی سڑکوں پر رواں دواں ہیں جس کا مطلب یہ لینا چائیے کہ ہر گاڑی مشکوک ہے اور ہر گاڑی کسی نہ کسی خودکش بمبار کو لے کر جارہی ہے ، اور اس نے کہاں حملہ کرنا ہے یہ کوئی نہیں جانتا ۔

ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں اسمگل ہو کر آتی ہیں اور ان کے باقاعدہ شور رومز بنے ہوئے ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے غیر قانونی تارکین وطن کو تمام شہری علاقوں سے نکالا جائے، ان کو کیمپوں تک محدود رکھاجائے اور بعد میں ان کو اپنے ملک روانہ کیاجائے ۔

سیکورٹی ادارے پہلے ہی ان غیر قانونی تارکین وطن جن کی تعداد لاکھوں میں ہیں ،کوپاکستان کے لئے سیکورٹی رسک قرار دے چکے ہیں ، ان غیر قانونی تارکین کا انتظام پہلے کیاجائے ۔ 

یہ مسئلہ سیاسی اور سفارتی نہیں بلکہ صاف صاف سیکورٹی کا ہے جب تک ایک بھی نا معلوم شخص پاکستان کی سرزمین پر موجود ہوگا پاکستان کی سیکورٹی کو خطرات لاحق رہیں گے۔

ظاہر ہے اتنی بڑی آبادی میں دشمن کے ایجنٹ بھی موجود ہوں گے۔ افغان خانہ جنگی سے پہلے پاکستان امن و امان کی جنت تھی لیکن ہمارے حکمرانوں نے افغان خانہ جنگی کو جان بوجھ کر درآمد کیااور اس کے بدلے امریکا سے 3.6ارب ڈالر وصول کیے ۔

اگر ہم افغان خانہ جنگی کو درآمد نہ کرتے تو ہمارے ملک میں آج چین اور سکون ہوتا ۔ کوئی دہشت گرد افغانستان سے پاکستان کا رخ نہ کرتا اس جنگ کے نتیجے میں پچاس ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں ۔اس لیے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کا پتہ لگایا جائے چاہے یہ موجودہ واقعہ کا ہو یا گنداوا کے مزارکا۔ 

گمان ہے کہ ان دہشت گردوں کو افغانستان سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ افغان ہوں یا غیر قانونی تارکین وطن ہوں تاہم یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرحدوں کو محفوظ بنائے تاکہ کوئی دہشت گرد پاکستان آ کر تخریبی کارروائیاں نہ کرے اور عوام الناس کی جان اور مال کو نقصان نہ پہنچائے۔