|

وقتِ اشاعت :   October 23 – 2017

افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں جہاں ایک طرف بہتری کے اشارے مل رہے تھے وہیں ایک خبر یہ بھی سامنے آئی ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت تجارتی سامان سے بھرے پاکستانی ٹرک اب افغانستان میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔

قبل ازیں پاکستانی ٹرک سامان لے کر طورخم اور چمن کی سرحدی گزرگاہوں سے افغانستان داخل ہوتے رہے ہیں لیکن اب یہ سامان سرحدی گزرگاہوں تک لانے کے بعد اتار دیں گے جہاں سے اسے افغان ٹرکوں کے ذریعے ملک کے اندر منتقل کیا جائے گا۔

افغان ذرائع ابلاغ نے حکومتی عہدیداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ چونکہ افغان ٹرکوں کو بھی پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی لہذا اب افغانستان بھی ایسا ہی کرتے ہوئے طورخم اور سپن بولدک کے مقام سے یہ سامان اپنے ٹرکوں کے ذریعے منتقل کرے گا۔

ان کے بقول اس اقدام سے افغانستان کی کمپنیوں اور مال برداری کی صنعت کو فروغ کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

لیکن صنعت و تجارت کے پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر کے سینیئر وائس پریذیڈنٹ انجینیئر دارو خان اچکزئی کے نزدیک اس اقدام سے فائدے کی بجائے نقصان کا اندیشہ ہے۔

پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے دونوں ملکوں کے مابین تجارت اور ٹرانسپورٹ انڈسٹری کو نقصان ہو گا۔

“ہم سامان ان کے علاقے میں اتارتے ہیں تو میرا خیال ہے اب وہ ہمیں شیرخان بندر، تاجکستان اور ازبکستان کی سرحد تک جو سامان لے کر جاتے ہیں اس کی اجازت نہ دیں۔ اس سے فائدہ نہیں نقصان ہوگا۔ یہ افغان حکومت کو انتقال لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔”

پاکستان اپنے مشرقی پڑوسی ملک بھارت سے آنے والے سامان کو اپنی سرحد پر اتروا کر وہاں سے اپنے ٹرکوں کے ذریعے سامان افغانستان بھیجتا ہے اور اس پر افغان حلقے خاصے نالاں رہے ہیں۔

انجینیئر دارو خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان چلنے والے تمام ٹرکوں کے مالکان بھی پاکستانی ہوں۔ ان میں سے بہت سے ٹرک افغان علاقوں کے لوگوں کے بھی ہیں جنہوں نے دونوں ملکوں میں نقل و حرکت کی دستاویزات حاصل کر رکھی ہوتی ہیں۔