کوئٹہ: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین مجید خان اچکزئی نے کہا ہے کہ محکمہ تعلیم میں شفافیت لانے کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے محکمہ تعلیم میں جو کچھ ہوا ہے تمام تر تفصیلات عوام کے سامنے لائے جائیں گے ۔
سکالر شپ کی مد میں جو فنڈز طلباء کے نام پر نکالے گئے ہیں ان کی تحقیقات کی جائے کیا حق داروں کو ان کا حق ملا ہے جیل میں اصلاحات لانے کی اشد ضرورت ہے ورلڈ بینک پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ساتھ تعاون کریں تاکہ صوبے میں شفافیت کو برقراررکھنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے محکمہ تعلیم ، محکمہ پارلیمانی امور اور ورلڈ بینک کے نمائندوں سے بات چیت کر تے ہوئے کیا انہوں نے کہا ہے کہ محکمہ تعلیم کا اسپیشل آڈٹ کرایا جائے اور جو ریکارڈ نہیں دیا جا رہا ان کے خلاف کا رروائی کی جائے ۔
نیب اور اینٹی کرپشن کو بھی ان تحقیقات میں شامل کرینگے کیونکہ آواران میں زلزلے کے وقت اسکولوں کی دوبارہ مرمت کے لئے جو فنڈز مختص کئی گئی تھے ان پر بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ۔
اس وقت کے ڈائریکٹر اسکول نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کہا کہ جو اسکولوں کی مرمت کی ہے وہ معیاری نہیں ہے اور متعلقہ آفیسر کے خلاف ایکشن لیا جائے اور اسی طرح سبی کی پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ میں جو کچھ ہوا ہے ان کو بھی دیکھا جائے اورر یکوری کی جائے اگر نہ ہوا تو کارروائی کی جائے ۔
اس سال 52 ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا مگر محکمہ تعلیم بینکوں میں پیسے رکھ کر حکومت کو نقصان پہنچا رہی ہے اور حکومت کیسے چل رہی ہے 2018 انتخابات کے بعد جو مخلوط حکومت آئے گی وہ تو100 ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کرینگے ۔
انہوں نے کہا ہے کہ محکمہ تعلیم اس حوالے سے شفافیت میں اپنا کردار ادا کریں اگر نہیں کر سکتے تو پھر قانون کے مطابق کا رروائی جائے گی سکالر شپ اداروں کی بجائے طلباء کو کیوں دی جار ہی ہے اور جو2 کروڑ روپے طلباء میں تقسیم کئے گئے ہیں ان لسٹ اڈیٹر جنرل کو دی جائے اور جن طلباء کو سکالر شپ کی مد میں وظیفے دیئے گئے ہیں کیا وہ اداروں سے تصدیق شدہ ہے10 میں ریکارڈ پیش کیا جائے ۔
یکرٹری ایجو کیشن عبدالفتح بھنگر نے کہا ہے کہ محکمہ تعلیم تمام تر صورتحال سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو آگاہ کرے گی سیکرٹری ہائر ایجو کیشن عبداللہ جان نے کہا ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے1750 طلباء جوکہ ملک کے چالیس یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہے ۔
ان کو ماہانہ فی طلباء کو13 ہزار روپے دیئے جا تے ہیں بعد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین مجید خان اچکزئی کی صدارت میں لاء اینڈ پارلیمانی امور کا اجلاس ہوا جس میں صوبائی مشیر رضا خان بڑیچ اراکین اسمبلی یاسمین لہڑی اور انتیا عرفان سمیت سیکرٹریز بھی موجود تھے ۔
مجید خان اچکزئی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے جیلوں میں حالات انتہائی تشویشناک ہے اور جیلوں کی حالت بہتر کرنے کیلئے اصلاحات لانے کی اشد ضرورت ہے اور اس وقت جیلوں میں ہزاروں قیدی ایسے ہے جو دہشتگردی کی دفعات کی وجہ سے جیلوں میں ہے اور ان کے راضی نامے ہو چکے ہیں مگر بد قسمتی سے اس دفعہ کی وجہ سے اب تک سزائے کاٹ رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا ہے کہ تمام محکمے اس حوالے سے ایک قانون سازی کریں اور قانون سازی کو بلوچستان اسمبلی سے قرارداد کی شکل میں پاس کر کے بلوچستان ہائیکورٹ اس حوالے سے تعاون کریں کیونکہ ہزاروں ایسے لوگ ہے جو ان کی وجہ سے اب تک جیلوں میں قید ہے 7ATC کالعدم تنظیم دہشت گرد تنظیموں اورملک کے خلاف کام کرنے والے جاسووں پر لگ سکتا ہے ۔
ورلڈ بینک کے نمائندوں سے بات چیت کر تے ہوئے مجید خان اچکزئی نے کہا ہے کہ اس وقت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی صوبے میں ہونیوالی کرپشن کو منظر عام پر لانے کے لئے بہت سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود ہم کرپشن کرنے والوں کو نہیں بخشے گے حکومت اور اپوزیشن کے اراکین ہم سے خوش نہیں ہے ۔
ماضی میں کرپشن کی تحقیقات نہیں ہوئی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سابقہ اور موجودہ حکومت کی احتساب کر رہی ہے ورلڈ بینک پبلک اکاونٹس کمیٹی کو فعال بنا نے کے لئے ہمارے ساتھ تعاون کریں میری کوشش ہے کہ میں تمام محکموں میں صاف وشفاف احتساب کرو ۔