پور ے وفاقی نظام میں صرف ڈپٹی چئیرمین سینٹ ہی بلوچستان کے نمائندے ہیں اس کے علاوہ پوری وفاقی انتظامی مشینری میں بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔
اسی وجہ سے وفاق کی جانب سے چھوٹے اور محکوم صوبوں پر کوئی بھلا گرتی ہے تو سب سے بلوچستان پر گرتی ہے ۔ جب کبھی ہنگامی حالت میں فنڈز کی کٹوتی ہوتی ہے تو سب سے پہلے بلوچستان کے فنڈز روک لیے جاتے ہیں۔
پورے مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بلوچستان کو پاکستان کا صوبہ تسلیم نہیں کیاگیا کیونکہ بڑے منصوبوں کے حوالے سے بلوچستان ہمیشہ نظر انداز رہااور ساری توجہ کا مرکز حسب معمول پنجاب رہا۔
بلکہ اس کے برعکس بلوچستان کے دو اہم ترین پروجیکٹ ‘ کچھی کینال اور گوادر پورٹ کو بند کیا گیا۔ کچھی کینال کی تعمیر کو بگٹی سرزمین پر روک دیا گیا اب بقیہ 640,000چھ لاکھ چالیس ہزار ایکڑ ‘ کچھی کے میدانی علاقوں میں سیراب نہیں ہو گی ۔
گوادر پورٹ کی صورت حال یہ ہے کہ اس کا بنیادی ڈھانچہ گزشتہ پندرہ سالوں میں تعمیر نہ ہو سکا ۔ ان پندرہ سالوں میں صرف تین برتھ تعمیر ہوئے اور اسی پر شادیانے بجائے جارہے ہیں ۔
گوادر کے رہنے و الوں کو پینے کا پانی نصیب نہیں وہاں تجارتی اور صنعتی استعمال کے لئے پانی کہاں سے آئے گا۔
کچھی کینال کی تعمیر پر لاگت کا اندازہ پچاس ارب روپے لگایا گیا تھا یہ منصوبہ جنرل مشرف نے شروع کیا تھا مگر صرف پہلے دور کی تعمیرات پر 80ارب خرچ ہوئے ‘ سابق وزیراعظم نواز شریف نے یہ تسلیم کیا تھا کہ کچھی کینال میں زبردست کرپشن ہوئی ہے اورانہوں نے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کاحکم بھی دیا تھا مگر کارروائی نہیں ہوئی اور بلوچستان کے حصہ کی دولت وفاقی نوکر شاہی اور ان کے حواریوں نے ہڑپ کرلیا ۔
اور آئندہ کے لیے یہ فیصلہ بھی کیا گیاکہ کچھی کینال بگٹی سرزمین تک ہی محدود رہے گی اس کو کچھی کے میدانی علاقوں تک توسیع نہیں دی جائے گی ۔اس سے قبل اعلیٰ ترین افسران کی جانب سے یہ اشارے پہلے ملے تھے کہ کچھی کینال کو بگٹی سرزمین تک محدود کردیا جائے گا یہ اشارے صحیح ثابت ہوئے ۔
معاشی حوالے سے بلوچستان کی شکایات انتہائی طویل ہیں ان کا تذکرہ وقتاً فوقتاً انہی صفحات پر ہوتا رہا ہے اورہوتا رہے گا ۔
لیکن سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت بے حس ہے اس میں شامل حکمرانوں کو صرف ذاتی مفادات عزیز ہیں، ان عوامی نمائندوں کا کردار کچھ زیادہ قابل رشک نہیں رہا ،ان کا سارا زور ذاتی مفادات تک محدود نظر آتا ہے،صوبائی اسمبلی کو صرف ذاتی اور گروہی مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کیاجارہا ہے ۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک دکاندار کو ڈائنامنٹ لائسنس کے اجراء میں کچھ تاخیر ہوئی، اس پرکچھ مخصوص مفادات کے لوگوں نے پورا ایوان سرپر اٹھا لیا ۔ دوسری طرف کچھی کینال کا منصوبہ بند کردیا گیا جس سے 640,000ایکڑ زمین آباد ہونی تھی اس پر سب کو سانپ سونگھ گیا ہے کوئی کچھ بولتا ہی نہیں ۔
پوری اسمبلی اس کی حامی نظر آتی ہے کہ اچھا ہی ہوا کچھی کینال بند ہوا کیونکہ اکثراراکین اسمبلی کو اس سے کسی خیر و برکت کی توقع نہیں تھی۔
آج کل سرکاری اشاروں پر اراکین اسمبلی اور سیاسی رہنما جو حکومت کے اتحادی ہیں یہ مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ بلوچستان کی نشستوں میں اضافہ کیاجائے ۔جبکہ دوسری طرف اصل حقیقت یہ ہے کہ اب تک تمام حکومتوں نے مجموعی طورپر عوام الناس کو مایوس کیا ہے۔
کیونکہ انہوں نے صرف اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی حفاظت بھر پور طریقے سے کی اورعوام کے جائز سیاسی اور معاشی حقوق کو پس پشت ڈال دیا ۔
لہذا چند ایک نشستوں کے اضافے سے عوام الناس کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا البتہ مزید چند لوگوں کو تنخواہیں اور مراعات ملیں گی یہ بھی گروہی مفادات کا تحفظ ہے ۔
اس کے برعکس ہونا تو چائیے تھا کہ ہمارے صوبے کے نمائندے اس کے لیے کوشش کرتے کہ مرکز اورصوبوں کے درمیان اختیارات کی زیادہ منصفانہ تقسیم ہو ۔
صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اور وفاق کو کم سے کم یعنی صرف اتنے اختیارات دئیے جائیں جو وفاقی نظام کو چلانے کیلئے کافی ہو، اضافی وفاقی اختیارات نے صوبوں کو محکوم بناد یا ہے۔
گزشتہ ستر سالوں کے تجربے نے یہ ثابت کردیا ہے مرکز کبھی بھی صوبوں کواپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار نہیں دے گا۔ اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ مرکزی حکومت بالا دستی پر اتر آئی ہے ۔
18ویں ترمیم کے بعد بھی محکمے وسائل کے ساتھ صوبوں کو نہیں دئیے گئے لہذا بلوچستان کی اسمبلی میں سیٹوں کے اضافے کی کوئی ضرورت نہیں۔
مفاد پرست عناصر کی تعداد میں اضافہ بلوچستان کی آبادی کے مطابق نہیں بلکہ پارلیمان میں تمام صوبوں کی برابر نمائندگی ہونا چائیے اور زیادہ تر اختیارات صوبوں کو دئیے جائیں سوائے دفاع اور خارجہ امور کے ۔