بلوچستان کے عوام سے نفرت اور تنگ نظری کی ایک اور مثال سامنے آگئی۔ گزشتہ دنوں کچھی کینال کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد دوسرے اور تیسرے مرحلے کی تعمیرات روک دی گئیں اور یہ منصوبہ بگٹی قبائلی علاقے تک پہنچا کر ختم کردیا گیا ۔
واضح رہے کہ کچھی کینال کی مجموعی لاگت کا تخمینہ پچاس ارب روپے لگایا گیا تھا یہ منصوبہ جنرل پرویزمشرف نے 2002ء میں شروع کیا تھا اس میں جان بوجھ کرپندرہ سال کی تاخیر کی گئی جس سے اس کی تعمیر ی اخراجات میں اضافہ ہوگیا اورپہلے مرحلے کی تعمیرات پر اسی ارب روپے خرچ ہو گئے ۔ تعمیرات بھی غیر معیاری اورناقص ہیں ۔ سابق وزیراعظم نے یہ تسلیم کیا کہ اس میں کرپشن ہوئی اورتعمیرات بھی معیار کے مطابق نہیں ہیں۔
یوں پہلے مرحلے کی تعمیرات پر اسی ارب روپے خرچ ہوئے۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے کی تعمیرات پر 120ارب روپے کے اخراجات کا اندازہ ہے اس لیے وفاقی حکومت نے بگٹی سرزمین پر کچھی کینال کا منصوبہ ترک کردیا ہے ۔ہمارے وفاق میں نمائندے اور پوری بلوچستان حکومت اور اسمبلی خاموش ہے ۔ اب کچھی کینال کا نام تبدیل کرکے بگٹی کینال یا سوئی کینال رکھا جائے۔ ابھی یہ باتیں ختم نہیں ہوئی تھیں کہ نو لانگ ڈیم کا اسکینڈل سامنے آگیا ۔
سابق سیکرٹری نے تصدیق کی اس نے دو ارب روپے کی سرکاری فنڈ کو ایک نجی بنک میں رکھا ،اس طرح وہ کرپشن کے مرتکب ہوئے ۔ قومی اسمبلی کی کمیٹی کویہ بتایا گیا کہ ابتدائی طورپر نو لانگ ڈیم پر اخراجات کا تخمینہ 11ارب روپے لگایا گیا تھا آٹھ سالوں کی دانستہ تاخیر کے بعد اب اس کی تعمیر کا تخمینہ 26ارب روپے لگایا جارہا ہے ۔
سابق وفاقی سیکرٹری نے قومی اسمبلی کی سب سے بڑی اور اہم کمیٹی کو بتایا کہ آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی نو لانگ ڈیم پر کام شروع نہیں ہوا لیکن اس پر اخراجات جاری ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے دو ارب روپے کی خطیر رقم سرکاری بنک یا نیشنل بنک کے بجائے ایک نجی بنک میں جمع کرائی ۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ نو لانگ ڈیم کے فنڈ سے کچھی کینال کو 74کروڑ روپے دئیے گئے ۔ نو لانگ ڈیم کچھی کے وسیع میدانی علاقے کو سیرا ب کرے گا جو بلند سطح پر واقع ہے جو کچھی کینال کمانڈ ایریا میں نہیں آتا ۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹ کمیٹی نے ان تمام باتوں کا نوٹس لیا ہے اس منصوبہ میں سینیٹر مگسی دلچسپی لے رہے تھے اور حال ہی میں انہوں نے سرکاری افسران سے ملاقاتیں کیں ان کو تسلیاں دی گئیں مگر منصوبے پر عمل درآمد شروع نہیں ہوا ۔
چونکہ وفاق اور وفاقی اداروں میں بلوچستان کی نمائندگی صفر ہے اور بلوچستان اور اس کے عوام کے مفادات کا تحفظ کوئی نہیں کرتا۔ دوسرے صوبوں میں یہ ممکن ہی نہیں کہ سرکاری ملازم ایک منصوبے کی رقم دوسرے منصوبے پر خرچ کرے چونکہ بلوچستان ایک لاوارث صوبہ ہے اور یہاں کے لوگوں کے پاس یہ اختیارات نہیں کہ کسی ایک ادنیٰ افسر کو سزا دے سکیں۔
یہ تودور کی بات ہے کہ حکومت تبدیل کر سکیں یا اس قسم کی دھمکی وزیر اعظم اور ان کے وزراء کو ملے کہ بلوچستان ناراض ہے اس لیے حکومت کو خطرہ ہے۔ ویسے بھی موجودہ حکومت کا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ تمام میگا پروجیکٹس کو مکمل کرے گا۔
روز اول سے بلوچستان کے طول و عرض کو سوئی گیس سے محروم رکھاگیا ۔ اس کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر آج بھی سوئی گیس سے محروم ہیں بلکہ بلوچستان کے 29اضلاع سوئی گیس کی سہولت سے ابھی تک محروم ہیں یعنی ساٹھ سالوں بعد بھی ان کو گیس نہیں ملی ۔
گوادر پورٹ کے تین برتھ تعمیر کیے گئے پندر سال بعد بھی گوادر پورٹ کو مکمل کرنے اوراس کو فعال بنانے کے لیے کوئی کام نہیں ہوا یہاں تک کہ لوگوں کے پاس پینے کا پانی نہیں ہے ۔ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن صرف 400میگا واٹ کا لوڈ اٹھا سکتی ہے یعنی بلوچستان میں دائمی درد سر ہوگا ۔
پورے بلوچستان میں سڑکیں بنانے اور اس کا نظام بنانے میں مزید سو سال کی ضرورت ہوگی ۔ صاف پانی ‘ صحت ‘ صفائی کا لوگ تصور ہی نہ کریں۔ تعلیمی ادارے اور ہسپتال زبوں حالی کا شکار ہیں اس میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ۔
صوبائی سطح پر اچھی حکمرانی کا تصور ہی نہیں ہے بلکہ صوبائی حکومت کی جانب سے ایسا کوئی منصوبہ نظر نہیں آتا جس سے صوبائی حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو جہاں تک صوبائی حکومت کے ترقیاتی اسکیموں کا تعلق ہے ستر فیصد انتہائی چھوٹے اور غیر اہم ہیں جس پر قومی دولت کو ضائع کیاجارہا ہے ۔ شاید یہ حکومت کی پالیسی ہے کہ رقم بیشک ضائع جائے مگر کسی بھی صورت عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچے۔