|

وقتِ اشاعت :   November 7 – 2017

بہت عرصہ بعد پاکستان پیپلزپارٹی نے عوام سے رابطہ مہم شروع کردیا ہے اور سب سے بڑا عوامی مسئلہ ‘ قیمتوں میں اضافہ اور گرانی کو اٹھایا ہے۔ چونکہ سینکڑوں اشیاء کی قیمتیں پٹرول کی قیمت سے جڑی ہوئی ہیں اس لیے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔

ایک اندازے کے مطابق شاہ خرچ حکومت فی لیٹر پیٹرول پر چالیس روپے سے زائد ٹیکس وصول کرتی ہے حکومت کی آمدنی کا سب سے آسان ترین ذریعہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہے ۔ چنانچہ پاکستان پیپلزپارٹی نے یہ صحیح فیصلہ کیا کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا جائے اور لاکھوں پاکستانیوں سے اس احتجاج کے توسط سے رابطہ کیاجائے ۔ 

اور لوگوں کو آنے والے زیادہ بڑے بحران کیلئے پہلے سے ہی متحرک کیاجائے ۔ پیپلزپارٹی کی یہ حکمت عملی کا میاب رہی اور سینکڑوں شہروں اور دیہاتوں میں عوام نے مظاہرے کیے ،سڑکوں پر ٹائر جلائے اور حکومتی پالیسی کو مسترد کردیا۔

کارکنان اور مظاہرین نے حکومت کے خلاف زبردست نعرہ بازی کی اوریہ مطالبہ کیا کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کو واپس لیاجائے تاکہ ملک میں گرانی کم ہو اور لوگوں کو زیادہ بہتر سہولیات ملیں۔ 

یہ مظاہرے ملک کے چاروں صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر میں بھی ہوئے جہاں پر لوگوں نے حکومتی پالیسی کی مذمت کی اورقیمتوں میں اضافے کی واپسی کا مطالبہ کیا ۔پیپلزپارٹی کے اہم ترین رہنماؤں نے نہ صرف ان مظاہروں میں شرکت کی بلکہ انہوں نے احتجاجی مظاہرین سے خطاب بھی کیا اور پارٹی پالیسی کی وضاحت بھی کی۔ ان مظاہروں کے بعد پیپلزپارٹی اپنی آئندہ حکمت عملی کا اعلان کرے گی ۔

یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پیپلزپارٹی کے آئندہ کالائحہ عمل حکومت پر مزید دباؤ ڈالنا ہے ۔ ایسی صورت میں مسلم لیگ ن اور اس کی حکومت کی توجہ نواز شریف اور اس کے خاندان کے مقدمات سے ہٹ جائے گی اور حکومت زیادہ صحیح فیصلے کرے گی ۔

کم سے کم اداروں پر حملے کم ہوجائیں گے کیونکہ پیپلزپارٹی کے احتجاج کا تعلق آئندہ ہونے والے انتخابات سے ہے ۔ پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ انتخابات میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کو شکست دی جائے ۔

پیپلزپارٹی واحد پارٹی ہے جو اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یہ اہلیت رکھتی ہے کہ انتخابات میں اپنے سیاسی مخالفین کو شکست دے سکے اور آئندہ حکومت بنائے۔ 

یہ تصور عام ہے کہ مسلم لیگ ن بنیادی طورپر ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ تاجروں اور صنعت کاروں کا ٹولہ ہے جو سیاست میں آکر اپنے تجارتی اور مالی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ نواز شریف کے نا اہل ہونے کے بعد مسلم لیگ ایک بڑے بحران کاشکار ہے ۔

تاجروں اور صنعت کاروں کی حکمرانی ختم ہورہی ہے ۔ مسلم لیگ ن کے غیر تاجر حضرات سخت ناراض ہیں اور بڑی تعداد میں پارٹی چھوڑ سکتے ہیں اس لیے پریشانی کے عالم میں نواز شریف نے پارٹی کے اہم رہنماؤں کا ایک اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا ہے جس میں پارٹی کے اندر گروہ بندی کا معاملہ زیر بحث آئے گا۔

اس سے قبل مسلم لیگ ن کے غیر تاجر اراکین کی یہ شکایت تھی کہ نواز شریف سالوں ان سے نہیں ملتے تھے اور نہ ہی کا بینہ کا اجلاس بلاتے تھے یا کبھی اجتماعی صلاح و مشورہ کے لیے ان کو طلب کرتے تھے۔ 

چونکہ موصوف ملک کے بے تاج بادشاہ تھے وہ مسلم لیگ کے غیر تاجر رہنماؤں سے اچھا برتاؤ نہیں کرتے تھے ان کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ سندھ میں ممتاز بھٹو ‘ لیاقت جتوئی ‘ غوث علی شاہ اور دیگر بڑے لیڈر ان سے ناراض تھے کہ وہ ان کے فون تک نہیں سنتے تھے۔ 

جس پارٹی میں ایسے بڑے اور با اثر لوگوں سے ایسا سلوک ہو تو وہ پارٹی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اب سندھ میں مسلم لیگ ن کے پاس چند ایک ٹھگوں کے علاوہ کوئی نہیں ہے سندھ سے مسلم لیگ ن کو ایک بھی سیٹ ملنے کی امید نہیں ہے،یہی حال دوسرے صوبوں کا ہے۔ 

بہر حال دوسرے صوبوں میں مقتدرہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ کی حمایت نہیں کرے گی اس لیے مسلم لیگ کا مستقبل تاریک ہے ۔اصل مقابلہ پی پی پی اور پی ٹی آئی میں ہوگا۔ علاقائی پارٹیاں بلوچستان اور کے پی کے میں حکومت بنا سکتی ہیں ۔