پاکستانی فوج کے سربراہ نے ایران کا دو روزہ دور ہ کیا۔ دورے کے دوران جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایرانی فوج کے سربراہ کے علاوہ ایرانی سیاسی قیادت سے بھی ملاقات کی جہاں دو طرفہ امور خصوصاً خطے کی صورت حال زیر بحث آئی ۔ ایران اور پاکستان کی مشترکہ سرحد ‘ امن اور سلامتی کی سرحد کہلاتی ہے جس کو دہشت گرد خصوصاً مذہبی جنونی عناصر برباد کرنا چاہتے ہیں ۔
اس سرحد کے دونوں اطراف بلوچ قبائل آباد ہیں اوران کی آپس میں صدیوں سے رشتہ داریاں قائم ہیں ۔ دہشت گرد ی کی چند ایک کارروائیوں کے بعد سرحد پرعوامی آمد و رفت پر پابندہ لگادی گئی ، بعض مقامات پر دیوار یں بنائی گئیں،خندق کھودے گئے اور بعض علاقوں میں خار دار تاریں لگائی گئیں ۔ تاہم مجموعی طورپر یہ امن کی سرحد کہلاتی ہے ،وجہ یہ کہ پاکستان اور ایران کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہے ۔
1875ء تک ایرانی بلوچستان بھی بلوچ سرزمین کاباقاعدہ حصہ تھا۔ انگریز سامراج نے یہ علاقے ایران کے حوالے کیے کیونکہ برطانیہ گوکہ دنیا کا طاقتور ترین ملک تھا اور واحد سپریم پاور تھا ،وہ اس علاقے کی سیکورٹی سے قاصر تھا اور اسے ایران کی خوشنودی بھی درکار تھی، اس لیے یہ پورا خطہ ایران کے حوالے کیا ۔ دہائیوں بعد ایران کی حکومت نے ایرانی بلوچستان کو ریاست ایران میں باضابطہ طورپر ضم کیا۔
جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو ایک نئے ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا ۔ اس کی بنیادی وجہ سیکورٹی کے خدشات تھے ، دونوں ممالک کے درمیان تقریباً ایک ہزار کلو میٹر طویل سرحدہے ۔برٹش انڈیا اور ایران کے درمیان حد بندی 1875ء میں ہوئی اور پاکستان ایران سرحدی حد بندی 1958ء میں ایوب خان کی فوجی حکومت کے دوران ہوئی جس میں پاکستان کے بعض علاقے ایران کو دئیے گئے ۔
پاکستانی سرحدی کمیشن کا سربراہ ایک جنرل این ایم رضا تھے، ان کے ایرانی رہنماؤں کے ساتھ خوشگوار تعلقات تھے ،پھر دونوں ممالک کے وفود کے درمیان قیمتی تحائف کا تبادلہ بھی ہوا ۔ بلوچ قوم پرستوں نے ایران کے ساتھ سرحدی معاہدے کو اعلیٰ عدالت میں نہ صرف چیلنج کیا بلکہ انہوں نے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔
ان کا موقف تھا کہ حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پاکستان کی سرزمین کا کوئی حصہ دوسرے ملک خصوصاً ایران کے حوالے کرے ۔ ایرانی بلوچستان میں حکومت کومسلح بغاوت کا سامنا تھا ۔ عراق بلوچ مسلح بغاوت کی حمایت کررہا تھا ۔ 1972ء میں میرغوث بخش بزنجوجو اس وقت پاکستانی بلوچستان کے گورنر اور بزرگ ترین سیاسی رہنما تھے،نے شہنشاہ ایران کی درخواست پر ثالثی کا کردار ادا کیا جس پر ایرانی بلوچوں نے مزاحمت ختم کردی۔
اس کے بعد پاکستان اور پورے ایرانی بلوچستان میں امن قائم ہوا سوائے ایک آدھ دہشت گردی کی کارروائی کہ جو مذہبی شدت پسندوقتاً فوقتاً کرتے رہے ۔ ایران نے پاکستانی بلوچستان کی ترقی میں دلچسپی ظاہر کی ، بلوچستان کو دو بڑے کپڑے کے مل لگا کر دئیے ۔ ان میں 18ہزار مزدوروں کے کام کی گنجائش تھی۔
پاکستانی مقتدرہ نے پہلے ان ملوں میں بڑے پیمانے پر کرپشن کروائی، بعد میں ان کو بندکروادیا ۔ایک مل کی مشینری جس کی مالیت دو ارب تھی،کو سابق گورنر جواس سازش کے روح رواں تھے،نے صرف سولہ کروڑ روپے میں خریدی ۔
18ہزار افراد کو روزگار سے محروم کرنے کا بہانہ یہ بنایا گیا کہ ان مقامات پر دو یونیورسٹیاں قائم کرنی ہیں حالانکہ یہ یونیورسٹیاں کسی کرائے کے جگہ پر بھی قائم ہو سکتی تھیں ، ملوں کو بند کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ بہر حال پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات خوش گوار ہیں دونوں ممالک کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ ایران میں ایک بارپھر ایران کی جانب سے یہ پیش کش دہرائی گئی کہ وہ پاکستان کو گیس اور بجلی فروخت کرنے کو تیار ہے اور ایران اکیلے پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے
۔ واضح رہے کہ گیس کی پائپ لائن پاکستانی سرحد گبدGABDاور بجلی کی لائن زاہدان ‘ گوادر‘ مند اور پنجگور کی سرحدوں پر موجود ہے ۔ پاکستان کو چائیے ایران سے بجلی اور گیس خریدے، کوئلہ کی بجائے گیس سے بجلی بنائے جو زیادہ سستی اور مفید بھی ہے اور سی پیک کے دونوں بجلی گھر ‘ ایک گوادر اور دوسرا حب میں ایرانی گیس سے چلائے تاکہ آلودگی کم سے کم رہے ۔