|

وقتِ اشاعت :   December 4 – 2013

news-picکوئٹہ(جنرل رپورٹر) بلوچستان یونیورسٹی کے ملازمین کا کشکول لیکر سڑکوں پر آکر بھیک مانگنا انوکھا یا غیرمہذبانہ احتجاج ہے؟ جہاں بڑے پروفیسر اس احتجاج میں شریک تھے وہی دیگرملازمین بھی جذباتی انداز میں نعرے لگاتے ہوئے بھیک مانگتے دکھائی دیئے حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جہاں معاشرہ انارکی جیسی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے، جہاں انصاف کا دوہرا معیار اور سماجی ڈھانچہ خود سر ہوتا ہے تو انہی یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے با علم افراد علمی شعور سے لیس ہوکرسماجی ناانصافیوں کے خلاف انقلاب برپا کرتے ہیں جسے ہر وہ اخلاقیات سے لیس کرتے ہوئے میدان عمل میں جانے کیلئے تیار کرتے ہیں گویا وہ کوئی بھی شعبہ ہو ، مگر افسوس جس طرح کے بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسرز ولیکچرار نے احتجاج کا جو رویہ اپنا یاوہ قابل افسوس عمل ہے بے شک انہیں اپنے جائز حقوق کیلئے جدوجہد کرنی چاہئے مگر اِس احتجاج کااثر عام طور پر کیا پڑتا ہے شاید ہمارے ذہین استاد اس سے نابلد ہیں یا انہیں احتجاج جیسے عظیم رویے سے مذاق کرنا تھا۔ تنخواہوں کی بروقت ادائیگی نہ ہونے پر یقیناًیونیورسٹی کے ملازمین احتجاج کا حق رکھتے ہیں اور حکومت خاص طور پر تعلیمی اداروں میں اس طرح کی بحرانی کیفیت کو کنٹرول کرتے ہوئے انہیں ریلیف فراہم کرے جو اُن کے اولین فرائض میں شامل ہے مگر یونیورسٹی کے پروفیسرز ولیکچرار اگر جہالت جیسے طرز پر عمل پیراہوکر احتجاج کرتے ہیں تو یقیناًایک بے علم اور باعلم شخص کا فرق ختم ہوجاتا ہے جن کے احتجاج کا طرز عمل ایک ہی ہو۔ جس احتجاج کو آج وہ جس طرز پر کررہے ہیں کل اس کااثر عام لوگوں پر کیا پڑے گا یہ تودور اسی ادارے سے منسلک طلباء پر کیا پڑے گا اس پر ذرا بھی نظرثانی نہیں کی گئی صرف ایک احتجاج کرنا تھا جس میں یہ ظاہرکرنے کی کوشش کی گئی کہ ہم فاقہ کشی میں مبتلا ہیں اور انہی بھیک کو بلوچستان حکومت کے سپرد کرینگے تاکہ وہ اس مالی بحران پر قابو پاسکیں جو ایک طنزیہ احتجاج تھا مگر جو تمسخرا اس احتجاج کاہوا اس پر شاید کسی طرح غور ہی نہیں کیا گیا کیونکہ معاشرے میں موجود احتجاج کے علم سے واقفیت رکھنے والے باشعور افراد بہتر انداز میں اس کا تجزیہ کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ یہ مذاق حکومت بلوچستان کے ساتھ نہیں بلکہ احتجاج کرنے والوں نے سڑکوں پر آکر خود اپنی سُبکی کی ہے شاید یہ تنقید ہمارے باشعور پروفیسرز ولیکچرار کو وقتی طور پر برا لگے مگر انہیں اپنے اس احتجاجی رویے پر ذرا غور کرنا چاہئے کہ آیا ہمارے اس عمل سے احتجاج بااثر ہوا یا نہیں، ہمارے مطالبات فوری طور پر مانے جائینگے یا نہیںیااِسی طرح صوبائی وزیرداخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے احتجاج کرنے والوں کاتمسخرا اڑاتے ہوئے ان کے کشکول میں ایک ہزار روپے ڈال دیے اور شاید ہمارے ذہین استاد یہ سمجھنے لگے کہ صوبائی وزیرداخلہ کے اس رویے کے خلاف طنزیہ جملے لکھے جائینگے اور انہیں تنقید کا نشانہ بنایاجائے گا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس احتجاج سے جو نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اتنے بڑے علمی ادارے کا اس طرح کا احتجاج خود انہی کیلئے علمی احتجاج کی شکل اختیار کرلے گا شاید جملے حکومت بلوچستان پر نہیں ہمارے ذہین استادوں پر ہی کسکے جائینگے۔ بہرحال حکومت بلوچستان تعلیم کی اولین ترجیح کا رٹ تو لگاتی ہے تو اپنے اولین فریضے کو بھی پورا کرتے ہوئے بلوچستان یونیورسٹی کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے فوری اقدامات اٹھائے تاکہ اس سے یونیورسٹی ملازمین سمیت تعلیمی ماحول پر بھی اثر نہ پڑے۔