قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان کی سماجی و اقتصادی ترقی پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے ساتھ مل کر مؤثر انداز میں آگے بڑھے گی۔
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہوا جس میں وفاقی وزرا ء احسن اقبال ، خواجہ آصف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، ڈی جی آئی ایس آئی، مشیر قومی سلامتی اور دیگر اعلیٰ سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔
کمیٹی نے باجوڑ ایجنسی میں پاک آرمی کی چیک پوسٹ اور کوئٹہ میں پولیس افسران پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی دشمن ممالک کی ایجنسیوں کی کارروائیاں بے نقاب ہوگئیں۔سیکریٹری خارجہ نے علاقائی سیکیورٹی صورتحال پر اجلاس کے شرکاء کو بریفنگ دی جبکہ مشرق وسطیٰ میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں تفصیلی غور و فکر کے بعد متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ مسلم امہ کے بہترین مفاد میں پاکستان دوطرفہ معاہدوں کی پاسداری کے ساتھ، مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں فعال کردار ادا کرے گا۔
کمیٹی نے بلوچستان میں سیکیورٹی صورتحال کا بھی تفصیلی جائزہ لیا اور اس میں واضح بہتری پر مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتھک محنت کو سراہا۔اراکین کا کہنا تھا کہ صوبے میں سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے وفاقی حکومت بلوچستان کے ساتھ مل کر مؤثر انداز میں آگے بڑھے گی۔
اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ مالی وسائل فراہم کیے جائیں گے اور صوبے میں ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا، تاکہ اس کا براہ راست بلوچ عوام کو فائدہ پہنچے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ دہشت گردوں، جرائم پیشہ افراد کی نقل و حمل روکنے کے لیے بارڈر منیجمنٹ سسٹم کو بہتر بنایا گیا ہے جبکہ انتظامی کارکردگی میں بہتری کے لیے بلوچستان میں بہترین افسران کو تعینات کیا جارہا ہے۔
اجلاس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) فریم ورک کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں تیل اور گیس کی علاقائی پائپ لائنز کے منصوبوں کا بھی جائزہ لیا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ یہ منصوبے پاکستان کے بہترین مفاد میں ہیں جن سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
قومی سلامتی کمیٹی کا بلوچستان کی اقتصادی ترقی پر زور دینا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ بلوچستان اس وقت دیگر صوبوں کی نسبت ترقی کے عمل سے کافی پیچھے ہے۔
بلوچستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے کافی اہمیت رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ معدنی وسائل کی وجہ سے بھی یہ ملک کا اہم ترین خطہ ہے مگر صوبے کی پسماندگی ہر وقت ایک سوالیہ نشان بن کر سامنے آتا ہے جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بلوچستان کی ترقی کے حوالے سے کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان ہمیشہ مرکز سے شاکی رہا کیونکہ اس کا سبب بھی یہی عدم توجہی ہے جو قیام پاکستان سے لے کرتاحال بلوچستان کے حوالے سے اسلام آباد بروئے کار لاتا رہا ہے ۔
ابھی دو دن پہلے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے بھی اپنے دورہ کوئٹہ کے دوران بلوچستان کیلئے دس سالہ ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا ۔
موجودہ حالات یہی تقاضہ کررہے ہیں کہ بلوچستان کی ترقی پرسنجیدہ توجہ دی جائے ۔
اس سے قبل متعدد ترقیاتی منصوبوں کی بازگشت سنائی دی مگر ان منصوبوں کا فائدہ برائے راست بلوچستان کو نہیں ملا کیوں کہ اول تو ایسے منصوبے صرف کاغذوں میں بنتے ہیں اور دوسری صورت میں مکمل ہونے والے منصوبے صوبے سے زیادہ مرکز کی مفادات کا محور ہوتے ہیں۔
اب اگر وفاق کی سطح پر اذہان تبدیل ہورہے ہیں سوچوں میں مثبت تبدیلی آرہی ہے تو اس سے زیادہ اچھی بات کیا ہوسکتی ہے۔
اب حقیقتاً ایسے منصوبے بنائے جائیں جو واقعی بلوچستان کے عوام کے لیے ہوں ۔
بلوچستان کی زمین، اس کا سمندر، اس کا ساحل، اس کی جغرافیہ ہمیشہ ملک کے لیے فائدہ مند رہے ہیں اور رہینگے لیکن اس کے عوام کا کیا قصور ہے۔
اس کے عوام کو بھی اپنا سمجھنا شروع کردیں، خلوص سے انہیں گلے لگائیں باقی مسائل خود بخود حل ہونگے لیکن اس میں خلوص نیت بنیادی شرط ہے۔
بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں پر کاموں کوتیزی سے شروع کرتے ہوئے انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے تمام وسائل بروئے کارلانے کے ساتھ ساتھ ان پر چیک اینڈ بیلنس کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ ماضی گواہ ہے کہ بلوچستان میں جاری منصوبوں کا فائدہ صوبہ کو نہیں ملا جس کی وجہ سے صوبہ ترقی کے عمل میں پیچھے رہا بلکہ ان منصوبوں میں کرپشن بھی انتہاکی گئی۔
ان تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان کو اس بار ترجیحی بنیادوں پر ترقی کے عمل میں شریک کرتے ہوئے یہاں کی ستر سالہ پسماندگی کو دور کیاجائے۔