|

وقتِ اشاعت :   December 6 – 2013

imagesکوئٹہ( خ ن ) : وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کی معیشت بنیادی طور پر زرعی ہے اور ان کی حکومت صوبے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اس شعبہ کی کلیدی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے، لیکن صوبائی محکمہ زراعت ایک عرصہ سے اپنی ناقص کارکردگی کے باعث زرعی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہا، انہوں نے کہا کہ اگر اس صورتحال کو تبدیل نہ کیا گیا اور محکمہ زراعت کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق منظم نہ کیا گیا تو بلوچستان خوراک کے حوالے سے غیر محفوظ ہوگا، ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز محکمہ زراعت کی جانب سے دی گئی ایک بریفنگ کے دوران کیا جس میں صوبائی سیکریٹری زراعت مشتاق رئیسانی نے انہیں محکمہ کے مسائل اور کارکردگی کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کیا، اس موقع پر صوبائی وزیر زراعت سردار اسلم بزنجو، وزیر منصوبہ بندی و ترقیات ڈاکٹر حامد اچکزئی ، وزیر اعلیٰ کے فوکل پرسن اور صوبائی اسمبلی کے رکن فتح محمد بلیدی، حاجی اسلام اور چیف سیکریٹری بلوچستان بابریعقوب فتح محمد بھی موجود تھے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ صوبہ میں محکمہ زراعت کئی سالوں سے غیر فعال ہے، زرعی پیداوار میں اضافہ اور ضروری تحقیق سے متعلق محکمہ کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے اور اربوں روپے صرف تنخواہوں اور غیر ترقیاتی مدات میں خرچ ہو رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ جب تک زراعت کا محکمہ جدید تقاضوں کے مطابق کام نہیں کرے گا، بلوچستان خوراک کے حوالے سے غیر محفوظ رہے گا، وزیر اعلیٰ نے خاص طور سے کپاس، فروٹ، سبزیوں وغیرہ سے متعلق ریسرچ کرنے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ ریسرچ کے نام پر گھپلے ہوئے ہیں، اس حوالے سے مختص فنڈز میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں کی شکایات ہیں، انہوں نے حکام پر زور دیا کہ پاکستان ریسرچ کونسل کے ساتھ ریسرچ اور جدید تربیتی پروگراموں کے حوالے سے مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کریں، انہوں نے کہا کہ محکمہ کے افسران و ملازمین کے استعداد کار کو بڑھانے پر توجہ دی جائے، میرانی ڈیم کے قابل کاشت رقبہ کو توسیع دی جائے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ محکمہ زراعت کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے اگر ضرورت پڑی تو باہر سے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی، انہوں نے کولڈ اسٹوریج کے منصوبے تیار کرنے کی ہدایت بھی کی، وزیر اعلیٰ نے محکمہ زراعت کے افسران سے کہا کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کریں، کیونکہ افسران سمیت ہزاروں ملازمین اس وقت گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں، انہوں نے افسروں پر زور دیا کہ وہ دفتر میں بیٹھ کر وقت ضائع کرنے کے بجائے فیلڈ میں جائیں اور عملی کام کریں، کام نہ کرنے والے اور کرپشن میں ملوث افسران کے خلاف کاروائی کی جائے گی اور انہیں گھر بھیج دیں گے، وزیر اعلیٰ نے محکمہ زراعت میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے 15دنوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی، وزیر اعلیٰ نے زرعی فارموں پر غیر قانونی قبضے کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قبضہ ختم کرانے کے لیے ایک مہینے کی مہلت دی، انہوں نے یہ ہدایت بھی کی کہ ایک ماہ میں ریسرچ کے حوالے سے منصوبہ پیش کیا جائے، وزیراعلیٰ نے تمام زرعی فارموں کی آمدنی اور اخراجات کی تفصیل بھی طلب کر لی، انہوں نے کہا کہ محکمہ زراعت کو فنڈز مہیا کئے جائیں گے لیکن نتائج بھی دینے ہونگے اور پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا، انہوں نے زیتون کے فارمز بنانے اور اس کے حوالے سے خصوصی ریسرچ کی ضرورت پر زور دیا، تاکہ نجی سطح پر زیتون کی پیداوار کو صوبے کے چند اضلاع میں عام کیا جا سکے، انہوں نے ہدایت کی کہ بلڈوزرز جن لوگوں کے قبضے میں ہیں ان سے فوراً واپس لیئے جائیں، ناکارہ بلڈوزروں کو شفاف طریقے سے نیلام کیا جائے، انہوں نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ بلڈوزروں میں اتنا زیادہ ایندھن استعمال ہو رہا ہے، جسے جاری رکھنا ممکن نہیں ہے انہوں نے نئے بلڈوزروں کی خریداری کے لیے شفافیت کو یقینی بنانے پر زور دیا۔وزیر اعلیٰ نے ذمہ دار افسران پر زور دیا کہ گھوسٹ ملازمین کا فوری سراغ لگایا جائے، انہوں نے کہا اس بات کو ہدف بنایا جائے کہ اگلے دس سالوں میں زرعی شعبے میں 300سے 400افراد کو پی ایچ ڈی کرایا جائے، وزیر اعلیٰ نے زرعی کالج کے حوالے سے ہدایت کی کہ ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے والا کوئی طالب علم ہو یا استاد اس کے خلاف کاروائی کی جائے، وزیر اعلیٰ نے یقین دہائی کرائی کہ اپنے بچوں کی تعلیم پر جتنے وسائل کی ضرورت ہوئی فراہم کریں گے، انہوں نے زرعی کالج کے لیے دو بسوں اور ایک ٹیوب ویل کی منظوری بھی دی۔