|

وقتِ اشاعت :   November 25 – 2017

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی)کے مرکزی نائب صدر و سابق صوبائی وزیر سید احسان شان نے کہاہے کہ صوبائی حکومت میں شامل تینوں اتحادی جماعتوں کے نظریات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں سوائے کرپشن کے کسی ایجنڈے پر بھی تینوں جماعتوں میں اتحاد نظر نہیں آتا ۔

آئندہ انتخابات میں جمعیت علمااسلام (ف)اور بی این پی مینگل سے سیاسی اتحاد بنائیں گے ،افغانستان سمیت ایران سے اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کیلئے موثر خارجہ پالیسی ناگزیر ہے گزشتہ انتخابات میں نیشنل پارٹی کی جانب سے کئی نشستوں پر دھاندلی کے ذریعے ہماری جیت کو ہار میں تبدیل کیا گیا ۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے بی این پی(عوامی)کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر ناشناس لہڑی کی قیادت میں پارٹی کے ایک وفدسے ملاقات کے دوران کیا انہوں نے کہا کہ 2013کے عام انتخابات میں ہماری پارٹی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہرایا گیا تھا کئی حلقوں میں ہمارے ووٹوں کی گنتی سمیت نتائج میں ردوبدل کے ذریعے نیشنل پارٹی کو کامیاب کرایا گیا ۔

تاہم بی این پی عوامی اب عوامی رابطہ مہم تیز کر کے آئندہ انتخابات کی بھرپور تیاری کر رہی ہے جس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں سے رابطوں کو تیز کیا گیا ہے جمعیت علمااسلام(ف)اور بی این پی مینگل کے ساتھ ملکر اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی ۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال بہتری کی بجائے مشکلات کی طرف بڑھ رہی ہے پشتونخواملی عوامی پارٹی،نیشنل پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے نظریات میں واضح اختلاف ہے جسکی واضح مثال حالیہ مردم شماری میں نظر آئی ، صوبے کے وسائل کو بے دردی سے لوٹنے اورکرپشن کے علاوہ کسی ایجنڈے پر بھی تینوں جماعتوں میں اتفاق نظر نہیں آتا ۔

ہر محکمے میں ریکارڈ کرپشن کی جارہی ہے،لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے مجید خان اچکزئی اب بھی سچ کا دامن تھامے ہوئے ہیں اور آئے روز کرپشن کے خلاف اپنی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں میں نیشنل پارٹی کی حیثیت ایک سیاسی مزدور کی ہے جسے صرف وفاداری کا معاوضہ دیا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال دن بدن ابتر ہوتی جارہی ہے آئے روز دہشت گردی کے واقعات میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں جبکہ حکومت محض مذمت اور کمیٹیاں تشکیل دے کر اپنا حق ادا کرنے میں مصروف ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر کے حالات کو خراب کر رہاہے ۔

اس کے علاوہ افغانستان میں اس وقت جو حکومت قائم ہے وہ بھی پاکستان سے بھرپور اختلاف رکھتی ہیں تاہم اس وقت ہمیں ایک موثر خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جو افغانستان سمیت ایران سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے فائدہ مند ثابت ہو ۔

انھوں نے کہا کہ سیاسی مخالفین نے میرے خلاف جھوٹے او رمن گھڑت کیسز بنائے اور وہ سمجھتے تھے کہ میرے سیاسی سفر کا خاتمہ ہو جائے گا تاہم وہ تمام کیسزحقائق کے منافی ثابت ہوئے اور فیصلہ میرے حق میں آیا جس کی بناپر آج مخالفین منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔