جوہانسبرگ(آزادی نیوز)جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر اور ملک میں نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی علامت سمجھے جانے والے رہنما نیلسن منڈیلا 95 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ پھیپھڑوں میں انفیکشن کی وجہ سے طویل عرصے سے زیرِ علاج تھے۔ انھوں نے جمعرات کی رات مقامی وقت کے مطابق نو بجے کے قریب اس دنیا کو خیرباد کہا۔ نیلسن منڈیلا کو بابائے جمہوری جنوبی افریقہ کہا جاتا ہے اور جنوبی افریقہ میں انھیں احترام سے ’مادیبا‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک انٹرویو کے دوران ان سے سوال کیا گیا کہ وہ کیا چاہیں گے کہ لوگ انھیں کس طرح یاد کریں، تو نیلسن منڈیلا کا جواب تھا کہ ’میں چاہوں گا کہ لوگ کہیں ایک ایسا شخص تھا جس نے دنیا میں اپنا فرض نبھایا۔‘ جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے ان کے انتقال کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے کہا ’ہماری قوم ایک عظیم سپوت سے محروم ہو گئی ہے۔‘انھوں نیکہا کہ نیلسن منڈیلا کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ ہوگی اور ان کی وفات پر قومی پرچم سرنگوں کر دیا گیا ہے جو منڈیلا کی تدفین تک سرنگوں رہیگا۔جیکب زوما نے نیلسن منڈیلا کو عظیم انسان قرار دیتے ہوئے کہا ’ہم ان میں وہ چیز دیکھتے ہیں جو ہم خود میں تلاش کرتے ہیں۔‘انھوں نے کہا: ’میرے ہم وطنو: نیلسن منڈیلا نے ہمیں اکٹھا کیا ہے تاکہ ہم انھیں خیرباد کہہ سکیں۔‘جوہانسبرگ میں نیلسن منڈیلا کی رہائش گاہ کے باہر موجود میڈ یا نے بتایا کہ ان کا سارا خاندان وہاں جمع ہوگیا ہے۔منڈیلا کے انتقال کے بعد ملک کے عوامی مقامات اور دنیا بھر میں جنوبی افریقی سفارت خانوں میں تعزیتی پیغامات درج کرنے کے لیے کتب رکھ دی گئی ہیں۔حکام کے مطابق منڈیلا کی تدفین مشرقی کیپ کے گاؤں کونو میں ہوگی جہاں وہ پلے بڑھے تھے۔ تاہم اس سے قبل جوہانسبرگ کے نواح میں واقع ایف این بی سٹیڈیم میں قومی سوگ کی تقریب منعقد ہوگی جس میں 90 ہزار افراد کی شرکت کا امکان ہے اور اس تقریب کے بعد ان کی میت کو پریٹوریا میں تین دن تک دیدارِ عام کے لیے رکھا جائے گا۔منڈیلا کی تدفین مشرقی کیپ کے گاؤں کونو میں ہوگی جہاں وہ پلے بڑھے تھے۔ تاہم اس سے قبل ان کی میت کو پریٹوریا میں تین دن تک دیدارِ عام کے لیے رکھا جائے گا۔نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ میں نسل پرست سفید فام حکمرانوں سے آزادی کی جدوجہد کے لیے اپنی عمر کے 27 سال جیل میں گزارے اور کہا جاتا ہے کہ ان کی موت کی وجہ بننے والی پھیپھڑوں کی بیماری کا آغاز قید کے زمانے میں ہوا تھا۔انھیں 1964 میں سبوتاڑ اور بغاوت کے الزامات میں عمر قید کی سزا دی گئی تھی اور فروری 1990 میں انھیں رہائی ملی تھی۔نسل پرستی کے خلاف جدوجہد پر 1993 میں انھیں امن کا نوبل انعام دیا گیا جبکہ 1994 میں وہ بھاری اکثریت سے ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے اور صدر بننے کے بعد انھوں نے مفاہمت اور معاف کرنے کی پالیسی اختیار کی۔انھوں نے 2004 کے بعد سے عوامی مصروفیات کو خیرباد کہہ دیا تھا اور آخری مرتبہ 2010 میں فٹبال ورلڈ کپ کی تقریب میں دکھائی دیے تھے۔گذشتہ دو برسوں میں علالت کے باعث انھیں پانچ بار ہسپتال لے جایا گیا اور رواں برس اپریل میں انھیں نمونیا کی وجہ سے دس دن ہسپتال میں رہنا پڑا تھا۔
انھیں آخری بار ستمبر میں ہسپتال سے گھر منتقل کیا گیا تھا تاہم اس کے بعد سے وہ بول نہیں سکے تھے۔