حال ہی میں وزیراعظم اور آرمی چیف نے ’’ خوشحال بلوچستان ‘‘ منصوبے کی نوید سنائی جس کا مقصدبلوچستان میں پسماندگی اور غربت کا خاتمہ اوربلوچستان کی معاشی ترقی کے منصوبوں کا آغاز ہے ۔ وزیراعظم نے بلوچستان کے منصوبوں کے لئے 172ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا ۔
بہر حال لوگ ان تفصیلات کا انتظار کررہے ہیں اس قوی امید کے ساتھ کہ حکومت ان منصوبوں پر جلد عمل درآمد کرے گی ۔ بہتر یہ ہوتا کہ’’ خوشحال بلوچستان ‘‘ پیکج سے جُڑے منصوبوں کا بھی اعلان کیا جاتا ۔ بلوچستان کا اصل مسئلہ اس کی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ہے ستر سال گزرنے کے بعد بھی بنیادی ڈھانچہ تعمیر نہ ہو سکا جس پر مستقبل کی معاشی ترقی کی بنیاد رکھی جائے۔
ٹرانسمیشن لائن صوبے کے ایک چھوٹے سے علاقے میں بچھائی گئی ہے صوبائی حکومت نے کیسکو کو نوکنڈی پاور ٹرانسمیشن لائن کی مکمل رقم ادا کردی ہے لیکن آج تک پاور ٹرانسمیشن لائن نہیں ڈالی گئی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے کے دور دراز علاقوں کو قومی گرڈ سے منسلک کردیاجائے تاکہ عوام الناس کو بجلی کی سہولت فراہم ہو ۔
موجودہ پاور ٹرانسمیشن لائن 400میگا واٹ سے زیادہ لوڈ نہیں اٹھا سکتی جبکہ صارفین کو 1600میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہے ۔ اس میں مستقبل کے منصوبے اور ترقیاتی عمل شامل نہیں ہے بلوچستان پہلے سے 1600میگا واٹ بجلی پیدا کررہا ہے ۔ح
بکو کی 1350میگا واٹ کی بجلی گھر زیر تعمیر ہے ،اضافی بجلی پیدا کرنے کا فائدہ صرف سندھ اور پنجاب کو ہوگا ۔ بلوچستان کو صرف 400میگاواٹ بجلی ملے گی اور عوام الناس بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سالوں تک سامنا کرتے رہیں گے۔ مکران ‘ خاران ‘ چاغی ‘ مری ‘ بگٹی ‘ کچھی کے دوردراز علاقے اوروسطی بلوچستان بجلی کی نعمت سے محروم رہیں گے ۔
گیس کی صورت حال یہ ہے کہ 29اضلاع کو قدرتی گیس سے جان بوجھ کر محروم رکھا گیا ہے ۔ حالیہ دنوں میں صرف چند ایک دیہاتوں کو گیس فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اگر بلوچستان کی سوئی گیس نہ ہوتی تو حکومت پاکستان سالانہ پانچ ارب ڈالر کی اضافی تیل درآمد کرتی ۔ اس طرح 65سالوں میں پاکستان کو 1365ارب ڈالر کی بچت ہوئی ہے ۔
لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے 29اضلاع سمیت اس کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر کوبھی سوئی گیس سے محروم رکھا گیا ہے ۔ پانی کی قلت تقریباً ہر ضلع اور شہر میں ہے ۔ 70سال بعد بھی حکومت بلوچستان عوام کو پینے کا پانی فراہم نہ کر سکی ۔ میرانی ڈیم آخری ڈیم تھا جو پرویزمشرف نے ذاتی نگرانی میں تعمیر کروایا ۔ نولانگ ڈیم ‘ وندر ڈیم او ردوسرے ڈیم پر تعمیر کاکام شروع نہ ہو سکا اور نہ ہی آئندہ برسوں میں اس کی امید ہے۔
کچھی کینال کی تعمیر سوئی کے مقام پر روک دی گئی اس طرح مکمل کینال تعمیر نہ ہونے سے مزید 640,000ایکڑ زمین آباد نہیں ہوسکے گی ۔ وجہ ریاست پاکستان میں حکومتوں کی بلوچستان کے منصوبوں میں عدم دلچسپی اور کرپشن ہے ۔ کچھی کینال کو پچاس ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہونا تھا مگر اس کے پہلے مرحلے کی تعمیرات پر اسی ارب روپے خرچ ہوگئے ۔
وفاق مزید 100ارب روپے کچھی کینال پر خرچ کرنے کو تیار نظر نہیں آتا اس لیے چھ لاکھ چالیس ہزارایکڑ زمین زیر کاشت نہیں آئے گی یہ گیم چینجر منصوبہ ہے جو حکومت نے ترک کردی ہے اس طرح نولانگ ڈیم پر اخراجات 11ارب روپے سے بڑھ کر26ارب روپے تک پہنچ چکی ہیں جبکہ اس کی تعمیرات بھی شروع نہیں ہوئیں ۔
سوائے حب اور وندر کے پورے بلوچستان میں صنعتیں قائم کرنے پر غیر اعلانیہ پابندی ہے ۔ گزشتہ ستر سالوں میں چند ایک سڑکیں وسطی بلوچستان میں بنائی گئیں جس کا مقصد ان علاقوں کو کوئٹہ کے دارالحکومت کے ساتھ لنک کرنا تھا۔
معاشی منصوبہ بندی کا نام و نشان نہیں ہے ستر فیصد ترقیاتی بجٹ گٹر منصوبوں کے گرد گھومتی ہے ۔ یہ ساری رقم گزشتہ 35سالوں سے ضائع ہورہی ہے، غریب وزراء ارب پتی بن گئے ہیں ۔