|

وقتِ اشاعت :   December 5 – 2017

آخر کار مشترکہ مفادات کونسل نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم رائج کیاجائے گا ۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے جو ملک کے تمام صوبوں میں یکساں طورپر رائج ہوگا ۔امیروں اور غریبوں کے لئے الگ الگ اسکول نہیں ہوں گے، اور نہ ہی وہاں سے خودکش بمباروں کی فیکٹریاں تیارہوں گی ۔

تمام اسکول اور دینی درسگاہ حکومتی کنٹرول میں ہوں گے اور کہیں بھی انگریزی میڈیم کے اسکول صرف اشرافیہ کے لئے مخصوص نہیں ہوں گے ۔ تمام اسکولوں اور درسگاہوں میں یکساں نظام تعلیم اور یکساں معیار تعلیم ہونا چائیے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ قوم کے تمام بچوں کو یکساں اور معیاری تعلیم دی جائے ۔ 

انہی اسکولوں میں ضروری اور بنیادی اسلامی تعلیم دی جائے جس سے غیر مسلم مشتثنیٰ ہوں ۔ گزشتہ دہائیوں میں سوشلزم اور سوویت یونین کے خوف سے عجلت میں ہزاروں دینی مدارس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان مدارس کو عرب ممالک کے علاوہ مغربی ممالک سے بھی مالی امداد ملی ، اس طرح مختصر مدت میں ہزاروں مدارس قائم ہوئے جن کے اخراجات اب بھی برداشت کیے جارہے ہیں ۔

بلوچستان میں بھی امام مساجد نے اربوں روپے کے دینی مدرسے قائم کیے، اب وہ ملا امام نہیں ‘ دینی مدراس کے مالک اور ملک کے سیاسی رہنما ہیں ۔ ان کے پاس ہزاروں بچے پڑھتے ہیں جن کو سیاسی جلسوں اور جلوس میں دیکھاجا سکتا ہے ۔ ہمیں سیاسی اسلام کی نہیں حقیقی اسلام کی ضرورت ہے ۔

امریکی پابندی کے بعدحکومت کو ایک دینی مدرسہ کو بند کرنا پڑاتو اس کے طلباء اور اساتذہ نے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا ۔ بی بی سی کے نمائندے نے یکے بعد دیگرے درجنوں بچوں سے ایک ہی سوال پوچھا کہ وہ علم حاصل کرنے کے بعد کیا بننا پسند کریں گے ہر ایک نے ایک ہی جواب دیا کہ وہ ’’ ایک مجاہد ‘‘ بننا چاہتے ہیں ۔ 

صحافی نے سوال کیا کہ وہ ڈاکٹر اور انجینئر نہیں بننا چاہتے ‘ سب نے الگ الگ یہی جواب دیا کہ نہیں ہم صرف مجاہد بننا چاہتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد احتجاج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا بلکہ مجاہدوں کی فیکٹری بند ہوگئی ۔ دوسری طرف انگریزی اسکولوں کی ملک میں بھر مار ہوئی ۔

یہ اشرافیہ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے قائم کیے گئے ۔ ان کے بچے یورپی ممالک میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ۔ ان کیلئے معیاری تعلیم کا انتظام ملک میں کردیا گیا ایسے اسکولوں کے مالک ارب پتی ہیں اور دولت کما رہے ہیں ۔دوسری طرف ایک یا دو کمرے کے سرکاری اسکول ہیں جو شہر کے علاوہ دوردراز علاقوں میں قائم ہیں۔ 

کوئٹہ میں لا تعداد بھوت اسکول ہیں لڑکیوں کے اسکولوں کا انسپیکشن ہوتا ہی نہیں اساتذہ سالوں غائب رہتے ہیں ۔اسکول کا استاد بننے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ مفت تنخواہ کے ساتھ آپ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹی پر ہیں ۔ بلوچستان میں موجودہ نظام تعلیم ناکام ہوگیا ہے اس لیے ان کی جگہ اب رہائشی اسکول قائم کیے جائیں ۔ 

دوردراز علاقوں میں طلباء اور اساتذہ دونوں اسکولوں کا رخ ہی نہیں کرتے ، اس کا حل یہی ہے کہ رہائشی سکول بننے کی صورت میں سب حاضر رہیں گے ۔ ۔ ایم پی اے فنڈ کو بڑے پیمانے پر رہائشی اسکول تعمیر کرنے پر خرچ کیاجائے ۔ 

دوسری جانب اساتذہ کی تربیت کاہنگامی پروگرام شروع کیاجائے تاکہ اساتذہ معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لئے اہل ہوں ۔ معیاری تعلیم کی فراہمی کیلئے جامع منصوبہ بندی کی جائے ،اس کے لیے وفاقی حکومت سمیت بین الاقوامی اداروں سے امداد طلب کی جائے ۔

دوست ممالک ضرور بلوچستان کی امداد کریں گے بلوچستان اپنے وسائل ایم پی اے حضرات پر ضائع نہ کرے ۔ اگر بلوچستان کے تمام مالی سالوں کے پی ایس ڈی پی پروگرام کو دیکھا جائے تو اسی فیصد رقم گٹر اسکیموں پر ضائع ہورہی ہے ۔ اس لیے ’’ خوشحال بلوچستان ‘‘ منصوبہ کو کامیاب بنانے کے لئے انسانی وسائل کو ترقی دی جائے یہی پائیدادر ترقی کی کنجی ہے ۔