وفاقی وزیر جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ نے یہ اعلان کیا کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کا اصولی طورپر فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔ قبائلی علاقوں کا انضمام ایک سال کے عرصے میں ہوجائے گا اور اس پرکام تیز ی سے جاری ہے کیونکہ اس کے لئے مکمل تیاری ضروری ہے جو ایک سے دو سال کا عرصہ لے سکتی ہے۔
جنرل قادر بلوچ نے یہ اعلان سرتاج عزیز کی موجودگی میں کیا جو فاٹا کمیشن کے چئیرمین تھے اور آج کل ڈپٹی چئیرمین منصوبہ بندی ہیں ۔ جنرل قادر بلوچ نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ انضمام کے معاملے کو انتظامی ‘ مالی یا سیاسی مشکلات کا سامنا نہیں ہے ۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ بہت جلد قبائلی علاقوں سے ایف سی آر جیسے کالے قانون کا خاتمہ کیاجائے گا۔
اس کالے قانون کے تحت لوگوں کو فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیا گیا ہے، اوروہ کسی سرکاری حکم کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کر سکتے ۔ سرتاج عزیز نے یہ اعلان کیا کہ حکومت اس سے متعلق ایک بل قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کرنے والی ہے ، اس کے بعد یہ بل سینٹ کے اجلاس میں پیش کیاجائے گا۔
قبائلی علاقوں سے متعلق ایک معاشی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے جس کو نیشنل اکنامک کونسل کے اجلاس میں اسی ماہ پیش کیاجائے گا ۔ وفاقی وسائل کے پول میں قبائلی علاقوں کے لئے تین فیصد ترقیاتی رقم مختص کی جارہی ہے جس کو فاٹا کی ترقی پر خرچ کیاجائے گا دوسرے الفاظ میں سالانہ 100ارب روپے فاٹا پر خرچ کیے جائیں گے۔ یہ رقوم ترقیاتی اسکیموں خصوصاً پانی ‘ توانائی تعلیم اور صحت عامہ کے شعبوں پر خرچ ہو گی ۔
سرتاج عزیز نے مزید بتایا کہ فاٹا لیویز فورس کو مزید توسیع دی جائے گی جس کے تحت بیس ہزار افراد بھرتی کیے جائیں گے، یہ بھرتی ایف سی کرے گی۔ لیویز فورس کو توسیع دینے کے منصوبے کو دو تین ماہ میں مکمل کیا جائے گا ۔جنرل قادر نے یہ بھی اعلان کیا کہ راہداری نظام سال نو سے ختم کیاجارہا ہے ۔
انتظامی معاملات کے لئے فاٹا کی ایک کونسل بنائی جارہی ہے جو فاٹا کے اراکین قومی اسمبلی اور سینٹ پر مشتمل ہوگی ۔ یہ ایک مشاورتی کونسل ہوگی جن کے فیصلوں پر ہر حال میں عمل کیاجائے گا، گورنر اس کے سربراہ ہوں گے ۔ فاٹا کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری انتظامیہ کے سربراہ ہوں گے ۔
ان تمام باتوں کا فیصلہ ہوگیا ہے اور فاٹا کے باقاعدہ انضمام کو ایک سال یا اس سے زیادہ وقت لگے گا۔ ادھر معروف اور ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ‘ سوائے جمعیت علماء اسلام ( ف) اور پی ایم اے پی کے، چاہتی ہیں کہ انضمام کا عمل فوری طور پر مکمل ہونا چائیے ۔ بعض حلقے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ انضمام کا فوری اعلان کیاجائے باقی معاملات بعد طے کیے جائیں ۔
واضح رہے کہ آزاد قبائلی علاقے پہلے No man’s Landتھے اب باقاعدہ پاکستان میں شامل کیے جارہے ہیں اور ان سب کو قانونی حقوق حاصل ہوں گے جو کسی عام پاکستانی کو حاصل ہیں۔ دوسری طرف کالے قوانین یا ایف سی آر کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کیاجارہا ہے اور عوام کے بنیادی انسانی حقوق بحال کیے جارہے ہیں جو ملک کے لئے ایک خوش آئند بات ہے ۔
یہ مرحلہ مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ صوبوں کی از سرنو تشکیل ہونی چائیے ۔ افغانستان کے جو مفتوحہ علاقے اس وقت بلوچستان میں ہیں، ان کو بھی کے پی کے میں شامل کرنا چائیے تاکہ پختونوں کا پاکستان کے وفاق میں ایک ہی اور طاقتور صوبہ ہو جہاں وہ اپنے قومی مفادات کا تحفظ کر سکیں ۔
اسی طرح بلوچستان کے تاریخی علاقے جو اس وقت پنجاب اور سندھ میں ہیں ان کو دوبارہ بلوچستان میں شامل کیا جائے ۔ ان میں ڈیرہ غازی خان اور اس سے ملحقہ علاقے جو ڈیرہ اسماعیل خان میں ہیں جیکب آباد ‘ کندھ کوٹ اور کشمور کے علاقے جو اس وقت سندھ میں ہیں ان کو دوبارہ بلوچستان میں شامل کیا جائے اور جنوبی پنجاب کو سرائیکی صوبہ بنایا جائے ۔