|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2017

1997ء کے بعد دوسری بار بلوچستا ن کے اکثر علاقے خشک سالی کا شکار ہیں 1997ء سے لے کر 2005ء تک پورے بلوچستان میں خشک سالی رہی اور 2005ء کے آخری مہینوں میں خشک سالی کا خاتمہ ہوا ۔ دوسرے الفاظ آٹھ طویل سالوں تک خشک سالی نے پورے بلوچستان میں تباہی پھیلائی ۔

ایک اندازے کے مطابق اس دوران 18لاکھ یعنی 25فیصدمال مویشی ہلاک ہوگئے اور تقریباً بلوچستان کی دیہی معیشت کو تیس ارب روپے کا نقصان پہنچا ۔ بدقسمتی سے ایک بار پھر خشک سالی نے گزشتہ تین سالوں سے تباہی پھیلائی ہوئی ہے اکثر اضلاع خشک سالی کا شکار ہیں ۔ مال مویشی ‘ بھیڑ بکریاں بڑی تعداد میں ہلاک ہورہی ہیں خوراک میں کمی کے باعث اکثر لوگ بیمار پڑ گئے ہیں ۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ حکمران اپنی حکمرانی کے آخری دنوں میں پی ایس ڈی پی اور ذاتی مالی فوائد کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔ کسی کو ہوش نہیں کہ صوبے میں خشک سالی نے بڑی تباہی مچائی ہوئی ہے بعض علاقوں میں بہت ہی کم بارشوں کی اطلاعات ہیں اور کچھ علاقوں میں خشک سالی کے اثرات کچھ کم ہیں تاہم لوگ مکمل غذا نہ ملنے پر بیمار پڑ گئے ہیں بلکہ اکثر اموات کی بھی اطلاعات ہیں۔ 

چونکہ حکمرانوں اور افسران کو عوام کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لہذااس جانب ان کی کوئی توجہ نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی حکومت صوبے بھر میں ہنگامی حالات کا اعلان کرے اور جنگی بنیادوں پر دوردراز علاقوں کے لوگوں کو فوری امداد فراہم کرے بلکہ وفاقی حکومت پوری دنیا سے امداد کی اپیل کر ے تا کہ خشک سالی کا سامنا کیاجائے اور 1997ء سے 2005ء والی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ 

وفاقی حکومت جتنی جلد بین الاقومی امداد کی اپیل جاری کرے گی اتنی ہی جلد عوام الناس کو راحت ملے گی کیونکہ ان کو بر وقت امداد کی ضرورت ہے تاخیر کسی بڑے انسانی المیے کا سبب بن سکتاہے۔ اسی طرح صوبائی حکومت اپنے ایم پی اے فنڈ کو عوام الناس کو راحتیں پہنچانے کے لئے استعمال میں لائے۔ 

انسانی زندگیوں کو بچانا حکومت کا اولین فرض ہے اس لیے ہر ایم پی اے کا فنڈ خشک سالی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے استعمال میں لایا جائے ۔ اگر بڑی تعداد میں مال مویشیوں کی ہلاکتیں ہوئیں تو غریب لوگوں کا دوردراز علاقوں میں زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔ گزشتہ آٹھ سالوں کی خشک سالی میں صوبے کی دیہی معیشت تباہ ہوگئی تھی ،تقریباً تیس ارب روپے کا نقصان ہوا تھا جبکہ حکمران عیش و عشرت میں مصروف رہے ۔

صوبائی اور وفاقی حکومت نے صرف چند کروڑ روپے دئیے اس طرح مفلوک الحال لوگوں کو اپنے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔یہ وفاقی حکومت کا وطیرہ رہا ہے کہ بلوچستان پرجب بھی بڑی بڑی آفات نازل ہوئیں اس کا رویہ ہمیشہ سرد مہری اور بیگانوں جیسا رہااور ہر ایسے موقع پر وفاقی حکومت نے چند کروڑ روپے دے کر اپنی جان خلاصی کی۔ مکران کی بارشوں میں وفاقی حکومت نے صرف دس کروڑدیے ۔ 

ان بارشوں میں تباہ کاریوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دریائے دشت میں سات لاکھ کیوسک ‘ دریائے نہنگ میں ساڑھے تین لاکھ اور دریائے کیچ میں سیلاب بہہ رہا تھا، طوفانی بارشوں سے ہزاروں گھر اوربڑی بڑی آبادیاں تباہ ہوگئیں ۔ وفاقی حکومت کے وزیر آئے اوردس کروڑ روپے دے کرچلتے بنے۔ا سی طرح نصیر آبادمیں تباہ کاریوں کا اندازہ سو ارب سے زیادہ کا تھا ۔ 

وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی نے اس کی تصدیق کی کہ نقصانات کا اندازہ سو ارب ہے حکومت نے صرف بیس کروڑ روپے دئیے۔ اس طرح بلوچستان کی دیہی معیشت تباہ ہوتی رہی لیکن وفاقی حکومت نے اس کا ازالہ کبھی نہیں کیا بلکہ سرکاری عمارات کو جو نقصان پہنچاان کی مرمت تک نہیں کی ۔

گندم کے گودام ‘ اسکول ‘ سرکاری دفاتر، پولیس تھانے تباہ ہوئے لیکن حکومت نے اپنی پراپرٹی کی بھی مرمت نہیں کی کیونکہ بعض حکمران بلوچستان کو پاکستان پر بوجھ سمجھتے ہیں جو ایک افسوسناک بات ہے ۔