|

وقتِ اشاعت :   December 15 – 2017

ملک کی پانچ اہم ترین مذہبی پارٹیوں نے متحدہ مجلس عمل کی دوبارہ بحالی کا فیصلہ کیا ہے۔ اگلے ایک ماہ کے دوران مذہبی جماعتیں جو اتحادی حکومتوں میں شامل ہیں، حکومتوں کو چھوڑدینگی۔ مولانا فضل الرحمان کو موجودہ حکومت نے کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا ہے اس کے علاوہ ان کو مرکزی وزیر کی بھی حیثیت حاصل ہے۔ 

اس کی پارٹی کے کئی وزراء وفاقی حکومت میں شامل ہیں،یہ سب لوگ اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیں گے اگر اس وقت تک موجودہ حکومت قائم رہی کیونکہ ن لیگ کی حکومت شدید دباؤ میں ہے اور اپنی ساکھ تیزی سے کھوتی جارہی ہے۔ اس کے اپنے مسلم لیگی اراکین حکومت سے ناراض اور نالاں ہیں اس لئے سیاسی ماحول کبھی بھی کوئی بڑی کروٹ لے سکتی ہے اور کسی بھی وقت نئی حکومت تشکیل دی جاسکتی ہے ۔ 

مسائل زیادہ گھمبیر ہوتے نظر آرہے ہیں اور حکومت ان تمام معاملات کا سامنا کرتی نظر نہیں آرہی بلکہ حالات و واقعات کے سامنے سرنگوں ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری جانب مقتدرہ کا ایک طاقتور طبقہ روایتی بڑی پارٹیوں کے خلاف ہے، اس کو دونوں بڑی پارٹیاں پی پی پی اور نواز لیگ نا پسند ہیں۔

اس کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں اس لئے مقتدرہ سے منسلک ہر شخص، لیڈر اور صحافی ان دونوں پارٹیوں کو ایک مخصوص انداز میں نشانہ بناتا ہوا نظر آتا ہے۔ گزشتہ دور میں عمران خان کی تحریک انصاف پر توجہ دی گئی اور وہ آج دن تک روزانہ بہت بڑے جلسے کرتی نظر آتی ہے جس میں ہزاروں لوگ شرکت کررہے ہیں، روزانہ کروڑوں روپے جلسہ عام پر خرچ ہورہے ہیں، یہ وسائل کسی بھی پارٹی کے اپنے نہیں ہوسکتے، اس کو غیبی امداد ضرور مل رہی ہوگی۔ 

مسلم لیگ جو تاجروں اور ارب پتی افراد کی جماعت ہے وہ اس تواتر کے ساتھ جلسہ عام کرنے کی سکت نہیں رکھتی اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کے وسائل بہت ہی محدود ہیں، ایک آدھ ارب پتی اتنے اخراجات نہیں کرسکتے۔ دوسری جانب عمران خان کا واحد مقصد نواز شریف کی حکومت کو شدید دباؤ میں لاکر ختم کرناہے اور گزشتہ چار سالوں سے وہ یہی کام کررہے ہیں ۔ 

اس کے ساتھ ساتھ وہ پی پی پی کو صرف آصف زرداری کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں عمران خان وہی کام کررہے ہیں جو مقتدرہ کے طاقتور لوگ چاہتے ہیں لیکن ان کو معلوم ہے کہ عمران خان کسی بھی لحاظ سے وزیراعظم بننے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ 

شاید ان کا ہدف اسی حد تک محدود رکھا گیا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کو گرائیں اور اس کے بعد ان کی سیاست ختم۔ موجودہ علاقائی صورت حال میں اور خصوصاً امریکہ بھارت اتحاد کے پس منظر میں یہ بھی ضروری نظر آرہا ہے کہ مذہبی پارٹیوں کو یکجا کرکے سیکولر پارٹیوں کے ہم پلہ کیا جائے تاکہ ضرورت پڑنے پر ان کی قوت کو استعمال میں لایا جائے۔ معلوم ہوتا ہے یہ ’’بی‘‘ پلان ہے۔ 

تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ مذہبی پارٹیوں کو سیکولر پارٹیوں خصوصاً پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے خلاف استعمال میں لایا جائیگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے حالات اتنے اچھے نظرنہیں آرہے کہ یہاں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں لہٰذا طویل دورانیہ کی ممکنہ عارضی حکومت سالوں ملک پر مسلط رہے گی۔ یہ انتخابات کا نعم البدل ہوسکتا ہے۔