پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں سیاسی مسائل پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ بعض اوقات سیاسی معاملات اور مسائل پر حکومت اور اپوزیشن کا یکساں موقف سامنے آتا ہے خصوصاً فیض آباد دھرنا اور اس سے متعلقہ مسائل پر اختلافات رائے کم سے کم نظر آتا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی جنون کے خلاف ہیں اور یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ ان چند سو مذہبی انتہا پسندوں نے پوری منتخب حکومت اور ملک کے آئین کو سرنگوں کیا، ملک کی حاکمیت کو نقصان پہنچایا۔ جس کی سینیٹر صاحبان نے مل کرپارلیمانی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
پنجاب کی حکومت کو اس بحث میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ لاہور سے جلوس کو ایک خاص منصوبہ کے تحت نکالا گیا جس کا مقصد حکومت اور اقتدار اعلیٰ کو یرغمال بنانا تھا جس میں مذہبی انتہا پسند کامیاب رہے۔
سینیٹر صاحبان کا خیال ہے اس سے پاکستان مخالف قوتوں کو ایک غلط اشارہ گیا کہ چند سو افراد کسی بھی وقت حکومت کو معطل کرکے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ تاہم سنجیدہ تجزیہ نگار اس بات کو قطعی طور پر رد کرتے ہیں کہ کوئی گروہ خواہ وہ کتنا ہی مسلح ہو ایٹمی اثاثوں پر قبضہ نہیں کرسکتا۔
ایٹمی اثاثے انتہائی محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور انتہا پسند خواہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ اگر سینیٹر حضرات ایسی تقاریر صرف حکومت کی مخالفت میں کرتے ہیں تو یہ سیاسی بحث و مباحثہ کی حد تک ٹھیک ہے ،وگرنہ اس کو کسی سطح پر سچ سمجھا گیا اور اس پر یقین بھی کیا گیا تو یہ ایک سنگین غلطی ہوگی ۔
ہاں یہ بات درست ہے کہ فیض آباد دھرنے کا معاہدہ ریاست اور ریاستی اداروں کی شکست ہے۔ البتہ یہ معلوم کیا جانا ضروری ہے کہ ان دھرنا والوں کی پشت پناہی کون کررہا تھا۔ ان کو فنڈز اور حمایت کہاں سے حاصل ہورہی تھی۔ انتظامیہ نے ان مظاہرین کے خلاف مربوط کارروائی کیوں نہیں کی اور اس کو جان بوجھ کر طول کیوں دیا؟ عوام ان تمام سوالات کا جواب چاہتے ہیں۔
انتظامیہ گرچاہتی تودھرنا والوں کے خلاف ابتدائی کارروائی کرکے ان کو منتشر کیا جاسکتا تھا۔ لیکن انتہائی تاخیریعنی اکیس دنوں کے جب کارروائی شروع ہوئی تو پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے 80فیصد کامیابی کے دعوے کرتے رہے لیکن بعد ازاں پولیس کو راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔
اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ اضافی لوگ اتنی سرعت سے جائے وقوع پر کیسے پہنچے۔ البتہ مسلم لیگ کو یہ یقین تھا کہ اسلامی شدت پسند ہمیشہ ان کے حمایتی اور ووٹرز رہے ہیں اور وہ مسلم لیگ کی حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتے۔
شاید اسی وجہ سے پنجاب کی حکومت اور وزیراعلیٰ نے ان کے خلاف انتہائی نرم رویہ اپنا یا لیکن آخر میں پنجاب حکومت کا فیصلہ غلط ثابت ہوا اور انہی کے حمایتیوں نے مسلم لیگ کی مرکز ی اور پنجاب کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی اور بعض اسلامی انتہا پسندوں نے نہ صرف مسلم لیگ بلکہ پارلیمان اور پنجاب اسمبلی سے استعفیٰ بھی دیا۔