|

وقتِ اشاعت :   December 16 – 2017

پاکستانی معاشرے میں پانچ حرفی لفظ معذرت شاذ و نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔اس لفظ کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی غلط کام کیا ہے تو وہ اس پر ندامت کا اظہارکر رہا ہے۔

پاکستان کے نظامِ اقدار میں غلطی کا اعتراف نہیں کیا جاتا اور جو لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں ان میں اس خوبی کا شدید فقدان ہے۔

آئیے چند ایسی واضح مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں جن میں بعض طاقت ور گروپوں اور اداروں کی طرف سے ایسی غلطیاں کی گئیں جن سے قوم کو عظیم نقصان اٹھانا پڑا۔

تازہ ترین مثال حکو مت ،بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ اور تحریک لبیک یا رسول اللہ(صلعم) کے شرکاء کے درمیان طے پانے والا چھ نکاتی معاہدہ ہے۔

اس معاہدے میں کہیں یہ معذرت نہیں کی گئی کہ فیض آباد میں دھرنے کی وجہ سے جڑواں شہروں کے لاکھوں عوام کو تکلیف اٹھانا پڑی۔

یہ اطلاعات بھی ملیں کہ دو افراد اس وجہ سے دم توڑ گئے کہ وہ طبی امداد کے لیے بر وقت ہسپتال نہ پہنچ سکے۔

تحریک لبیک کی قیادت یہ کہہ سکتی ہے کہ ان کے کارکن ایک مقدس مقصد کے لیے احتجاج کر رہے تھے اس لیے دونوں شہروں کے درمیان آنے جانے والے لوگوں کو اگر کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو یہ محض ایک معمولی سی قربانی تھی۔

جن لوگوں کوتکلیف اٹھانا پڑی اگر انھوں نے تحریک لبیک کے ڈنڈا برداروں کے خوف کی بجائے رضا کارانہ طور پر یہ قربانی دی ہوتی تو یہ دلیل مانی جا سکتی تھی۔

اسی طرح سے حکومت نے بھی ،اس سے قطع نظر کہ دھرنا دینے والوں کے مطالبات کس قدربلا جواز تھے انھیں قبول کرنے میں تاخیرپر اُن لوگوں سے کوئی معذرت نہیں کی جو مشکلات کا سامنا کرتے رہے۔

حکومت نے معاہدے میں یہ شق شامل کر کے کہ تحریک لبیک ” اُن(زاہد حامد) کے خلاف کسی قسم کا فتویٰ جاری نہیں کرے گی” واضح طور یہ تسلیم کر لیا ہے کہ تحریک لبیک یا کسی دوسرے عالم دین کو لوگوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے فتویٰ جاری کرنے کا اختیار ہے۔

چنانچہ یہ معاملہ اب فرد اور اللہ تعالی کے درمیان نہیں رہا۔اس سے ایک اور پیر صاحب کو یہ دعویٰ کرنے کی شہ ملی کہ وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ پنجاب کے وزیر قانون سچے مسلمان ہیں یا نہیں۔

حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے جس کے طویل المدت مضمرات ہیں اور اس طرح ایک غلط مثال قائم کی گئی۔

ایک اور مثال پر غور کیجئے،نواز شریف نا اہلی کیس میں فاضل عدالت نے لفظ ” قابل وصول” کا مطلب تلاش کرنے کے لیے ٹیکس قوانین میں دیئے گئے معانی پر انحصار کرنے کی بجائے ڈکشنری کا سہارا لیا۔

جب نواز شریف کے وکلا ء نے نظر ثانی درخواست دائر کی تو اس کی سماعت بھی انہی جج صاحبان نے کی ،اگرچہ یہ ایک معمول ہے مگر پھر بھی ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔

نظر ثانی درخواست کی سماعت کسی دوسری بنچ کو کرنا چاہیئے تھی کیونکہ ہم ججوں سے جو بہر حال انسان ہیں ،یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ اپنی انا سے بالاتر ہو جائیں گے اور معذرت کریں گے کہ ان کا پہلا فیصلہ درست نہیں تھا۔

جسٹس افتخار چودھری نے کمرشل کیسز میں تین ایسے فیصلے دیئے جن کی بلوغت سے عاری میڈیا اور سیاست دانوں نے تعریف کی مگر بالآخران سے قوم کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

ان مقدمات میں ریکو ڈیک کیس،اسٹیل ملز کیس اور کارکے کیس شامل ہے مگر عدلیہ کے معزز جج صاحبان میں یہ تسلیم کرنے کی کوئی روایت نہیں ہے کہ ان سے غلطی ہوئی۔

اب کچھ سیاسی اور فوجی فیصلوں کا ذکر کرتے ہیں اور ان غلط فیصلوں کے لیے قیادت کی طرف سے معذرت واجب ہے۔

جناب محمد علی جناح کی حکومت کی طرف سے پہلے یہ فیصلہ کیا گیا کہ صرف اردو ہی ملک کی قومی زبان ہو گی،مشرقی بنگال کے لوگوں نے اس فیصلے کو نہیں مانا ،اس متنازع فیصلہ پر احتجاج کیا اور اپنی جانیں قربان کیں۔

بالآخر حکومت کو بنگالی کو بھی قومی زبان کی حیثیت دینے پر رضامند ہونا پڑا،اس پر کسی نے معذرت نہ کی اور یہ نہ کہا کہ پہلا فیصلہ غلط تھا۔

مشرقی بنگال کو سب سے بڑے صوبے کی حیثیت سے محروم کرنے کے لیے ون یونٹ بنانے پرکسی نے معذرت نہیں کی۔

1956 کے آئین کو جو قیام پاکستان کے سات سال بعد بنایا گیا تھا، دفن کرنے پر کسی کے منہ سے لفظ ندامت ادا نہ ہوا۔

کسی نے اس بات پر بھی معذرت نہ کی کہ فوج کی طرف سے1958 میں مارشل لا کا نفاذ غلط تھا،جس نے ملک میں جمہوری عمل کی افزائش کو روک دیا اور مشرقی بنگال کے عوام کو مزید الگ تھلگ کر دیا۔

1965 میں کشمیر میں خفیہ جنگ شروع کرنے کی غلطی کو کسی نے کبھی قبول نہیں کیا،جس کا نتیجہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مکمل جنگ کی صورت میں نکلا۔جنگ کے سترہ روز بعدپاکستان کو جنگ بندی کرنا پڑی،کیونکہ ہمارے جنگی وسائل ختم ہو چکے تھے اور اگر یہ جنگ مزید جاری رہتی تو ہمیں بری طرح سے شکست ہو سکتی تھی۔کسی میں اتنی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ وہ بنگلہ دیش کے عوام کانو آبادی کی حیثیت سے استحصال کرنے اور پھر فوجی آپریشن کرنے پر ان سے معافی مانگتا۔

اسٹیبلشمنٹ میں کسی کے پاس یہ قبول کرنے کی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ جنرل ضیاء کی حکومت کی طرف سے افغان جنگ میں کودناپاکستان کی عظیم ترین غلطی تھی۔ضیا ء کی اس فوجی مہم کے باعث پاکستان اور افغانستان پچھلی تین دہائیوں سے لہو لہان ہیں۔اسلحہ و گولہ بارود کا پھیلاؤ اورملکی سیاست میں تشدد کا شامل ہونا ضیاء کی جہادی مہم کا براہ راست نتیجہ ہے۔

کارگل مہم شروع کرنے پرکسی نے معذرت نہیں کی جہاں ہمارے متعدد سپاہی کشمیری مجاہدین کے بھیس میں لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ جب ہم کارگل کی لڑائی ہارنے لگے تو ہمیں بھارت کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کے لیے انکل سام کے پاس بھاگنا پڑا۔

میں یہاں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے غیر ریاستی اداکاروں کی ان متعدد مہمات کا ذکر نہیں کر رہاجن کی وجہ سے بھارت کے ساتھ ہماری سیاسی حکومت کی امن کوششیں تباہ ہوئیں۔

مشکل یہ ہے کہ چونکہ ہم معذرت اور اپنی غلطیوں کو تسلیم نہیں کرتے ،اس لیے ہم اپنی اصلاح کے قابل نہیں ہو سکے اور ابھی تک یہ شور مچا رہے ہیں کہ ہم بین الاقوامی سازش کا شکار ہیں۔اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے۔


(کالم نگار تک رسائی کے لیے:ayazbabar@gmail.com)