|

وقتِ اشاعت :   December 18 – 2017

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکہ نے اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر یروشلم کو تسلیم کرنے کے ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف ایک قرارداد کو ویٹو کر دیا ہے۔

سیکیورٹی کونسل کے دیگر 14 اراکین نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالے تھے۔ یہ قرارداد مصر کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔

اب توقع کی جا رہی ہے کہ فلسطین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

اس سے قبل فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ‘جہاں نکی ہیلی (اقوام متحدہ میں امریکی سفیر) ویٹو کو فخر اور طاقت کا ذریعہ سمجھتی ہیں وہاں ہم انھیں دکھا دیں گے کہ بین الاقوامی سطح پہ وہ تنہا ہیں اوران کے موقف کو مسترد کیا جا چکا ہے۔’

توقع ہے کہ منگل کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ایک اجلاس منعقد ہوگا جس میں فلسطینی شہریوں کے حق ارادیت کا موضوع بھی زیر بحث آئے گا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کو کسی بھی فیصلے کے خلاف ویٹو کا اختیار حاصل ہے لیکن جنرل اسمبلی میں ویٹو نہیں کیا جاتا۔

بین الاقوامی اتفاق رائے سے انحراف کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ دسمبر کو یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تھا اور کہا کہ وہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کریں گے۔ ان کے اس اقدام کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی اور مختلف ممالک میں مظاہرے ہوئے۔

امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس بدھ کو یروشلم کا دورہ کریں گے جہاں وہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان سب سے زیادہ متنازع مسائل میں سے ایک بحران پر بات کریں گے۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے یروشلم کو تسلیم کرنے کے اعلان پر پینس کے ساتھ احتجاجاً ایک ملاقات منسوخ کردی ہے۔ اس کے بجائے اب وہ سعودی عرب کے بادشاہ سلمان اور شہزادے محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے۔

محمود عباس یروشلم سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام کے خلاف مسلم دنیا کو متحد کرنا چاہتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد فلسطینی قیادت پہلی بار پیر کی رات ملاقات کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967 میں مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران شہر کے مشرقی حصے کا کنٹرول حاصل کیا تھا اور پورے یروشلم کو وہ غیر منقسم دارالحکومت کے طور پر دیکھتا ہے۔

ادھر فلسطینی یروشلم شہر کے مشرقی حصے کو مستقبل میں اپنی ریاست کے دارالحکومت کے طور دیکھتے ہیں۔