مختلف پارٹیوں کے درمیان معاہدے کے بعد سینٹ نے حلقہ بندیوں کا بل منظور کیا۔ مسلم لی ق کے کامل علی آغا نے بل کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پارٹی پالیسی کی بناء پر بل کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ ان کی پارٹی کے سیکریٹری جنرل مشاہد حسین سید نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔
کامل علی آغا نے دعویٰ کیا کہ جن لوگوں نے بل کے حق میں ووٹ دیا ہے فلور کراسنگ کے مجرم پائے گئے لہٰذا ان کے خلاف تادیبی کارروائی ہوگی۔ اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حلقہ بندیوں کے بل کا پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے پاس ہونے کے بعد انتخابات کے ملتوی ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
ان کو توقع ہے کہ اب انتخابات وقت مقررہ پر ہوسکتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے قانونی پیچیدگیاں ختم ہوگئی ہیں اب الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کا کام مقررہ مدت میں پوری کرے گا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی اور عمران خان قبل از وقت انتخابات کرانے کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ اس کا شدت کے ساتھ مطالبہ کررہے ہیں۔ شاید عمران خان کا خیال یہ ہے کہ وہ ملک کی مقبول ترین شخصیت ہیں اوراگر اسی وقت انتخابات ہوجائیں تو ان کی پارٹی اکثریت حاصل کرسکتی ہے ۔
نواز شریف اور اس کی پارٹی کو بھی توقعات ہیں کہ اب ان کو ہمدردی کا ووٹ بھی ملے گا کارکردگی کے علاوہ ہمدردی کا ووٹ اس کی سیاسی قوت میں مزید اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سکون اور تحمل کے ساتھ اپنا کارڈ خوبصورتی سے کھیل رہی ہے اور خاموشی سے انتخابات کی تیاری کررہی ہے۔ ایم کیو ایم تو بڑی پارٹی ہے مگر آج کل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
آئے دن اس کی بطن سے ایک نیا گروپ ایک نئی پارٹی وجود میں آتی ہے، اس کے جیتنے کے امکانات کم سے کم نظر آرہے ہیں۔ ہر گروپ انتخابات میں چند ایک نشستیں حاصل کرسکے گا۔ باقی چھوٹی پارٹیاں حسب سابق اپنا رول ادا کرتی رہیں گی۔ ملکی صورتحال کا دوسرا خوفناک پہلو سیکورٹی سے متعلق ہے۔
دہشت گرد منصوبہ کے تحت عوام الناس کو ٹارگٹ کررہے ہیں۔ پاکستان کے وہ علاقے زیادہ متاثر ہیں جو افغان سرحد کے قریب واقع ہیں جن میں کوئٹہ،پشاور اور فاٹا کے علاقے شامل ہیں جہاں پر دہشت گرد اکثر حملے کرتے رہتے ہیں۔ سیکورٹی ذرائع مکمل یقین کے ساتھ عوام کو بتاتے ہیں کہ دہشت گرد وں کو کارروائی کے لیے کمک افغانستان سے مل رہی ہے اس میں افغانستان کی سیکورٹی ایجنسی براہ راست ملوث معلوم ہوتی ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ حکومت ملک بھر میں سیکورٹی کی صورت حال بہتر بنائے اور وقت ضائع کئے بغیر تمام افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے وطن واپس بھیجنے کے اقدامات اٹھائے۔ اولین اقدام کے طورپر ان کو رہائشی علاقوں سے فوری نکالا جائے اور افغان سرحد کے قریب کیمپوں میں رکھا جائے جب تک ان کی واپسی کے انتظامات نہیں کئے جاتے۔ اس کے بغیر ملک بھر میں امن کا قیام مشکل نظر آتا ہے۔
اس کے علاوہ ہزاروں نہیں لاکھوں سمگل شدہ گاڑیاں غیر قانونی طور پر پاکستان کی سڑکوں پررواں دوں ہیں جو اکثر دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال ہوتی ہیں ،سرکاری اہلکار بھی بڑے پیمانے پر سمگل شدہ گاڑیوں کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث پائے گئے ہیں۔
افغان تارکین وطن، بشمول افغان مہاجرین ملک کی سلامتی کے لیے شدید خطرہ ہیں ان کی موجودگی میں ملک بھر میں انتخابات نہیں ہوسکتے کیونکہ انتخابی جلسوں پر خودکش حملے ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب بھارت کی جانب سے بھی دہشت گردانہ کارروائیوں کا خطرہ رہے گا۔ ان تمامعوامل کے ہوتے ہوئے بھی بعض لیڈر یہ توقع رکھتے ہیں کہ اگر فوری انتخابات کرائے گئے تو وہ ملک کے وزیراعظم بن سکتے ہیں۔