آئے دن کوئٹہ کی معروف شاہراہوں اور خصوصی طور پر سول سیکریٹریٹ کے گرد و نواح میں گٹر ابلتے رہتے ہیں۔ میونسپل انتظامیہ ان مسائل کے بجائے اپنے تجارتی مفادات کو زیادہ ترجیح دیتی نظر آتی ہے۔
زرغون روڈ پر آئے دن گٹر کا پانی کھڑا رہتا ہے جس سے آمدورفت میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس جگہ ہمہ وقت ٹریفک جام رہتا ہے۔ امداد چوک سے لے کر سریاب کے آخری سرے تک سڑک پر گندہ پانی بہتا نظر آتا ہے۔
سریاب کے علاقے میں تو صفائی کرنے والے اہلکار کبھی نظر نہیں آتے اس طرح سارا سال گٹر ابلتے رہتے ہیں اور مقامی آبادی میں بیماریاں پھیلاتی رہتی ہیں۔ وزیراعلیٰ، چیف سیکریٹری اور صوبائی اسمبلی کے اراکین اس کا نوٹس لیں اور میونسپل حکام کو پابند کریں کہ وہ صحت و صفائی کا خاص خیال رکھیں ۔
قابل افسوس امر یہ ہے کہ 70سالوں بعد بھی پورے سریاب کو سیوریج کے نظام سے محروم رکھا گیا ہے۔ کوئٹہ کے میئر نے ایران کا دورہ کیا تھا وہاں کسی بھی ایک شہر میں نہ ان کو کوڑا کرکٹ نظر آیا ہوگا اور ابلتے گٹر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ پورے ایران میں گندے پانی کو صاف کرکے دوبارہ استعمال میں لایا جاتا ہے۔
ایران میں گندے پانی کو بھی اثاثہ سمجھا جاتا ہے اس لئے اس کو دوبارہ استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ حکام کمیشن کمانے کے بجائے علاقے کی صفائی پر توجہ دیں پہلے سیوریج کا ایک اچھا نظام تعمیر کریں اور اس کے بعد سڑکیں بنائیں ورنہ کراچی کی طرح ادھر سڑکیں بنائی جاتی ہیں اور دوسری طرف ابلتے گٹر ان سڑکوں کو ہفتوں اور مہینوں میں تباہ کردیتی ہیں۔
اس لئے سریاب پیکج میں زیادہ تر توجہ سیوریج کے ایک مربوط نظام پر دیں اور اس کے بعد سڑکوں کی تعمیر اور دوسرے ترقیاتی کام کریں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ حکام کو زیادہ شوق سڑکیں بنانے کا ہے حالانکہ بنیادی توجہ سیوریج کے نظام پر دینا چاہئے جو زیادہ تر بیماریوں کی وجہ ہے ۔
کوئٹہ ایک صحت افزا شہر ہے۔یہاں تپ دق کے مریض کا علاج صاف اور شفاف موسم میں قدرتی طور پر ہوتا تھا۔ آج کل کوئٹہ دنیا کا ایک آلودہ ترین شہر ہے۔ میکسیکو سٹی کے بعد کوئٹہ کا نمبر دوسرا ہے۔
آج دن تک منصوبہ ساز اس پر توجہ نہیں دے رہے کہ کوئٹہ میں قمقمے لگانے کی بجائے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں اور پرانے درختوں کو کاٹنا بند کیا جائے۔ اندرون شہر ہر قسم کی سرکاری تعمیرات پر پابندی لگائی جائے۔ میونسپل اور صوبائی اداروں پر پابندی لگائی جائے کہ وہ غیر ضروری اور تجارتی بنیادوں پر تعمیرات نہ کریں۔
اگر تعمیرات کررہے ہیں تو ان کو بند کیا جائے۔ سریاب کے وسیع میدان جو پہلے ریڈیو پاکستان کی ملکیت تھے وہاں صرف اور صرف درخت لگائے جائیں، اس کو ایک جنگل میں تبدیل کیا جائے دوسرے الفاظ میں (Block Forestation)کیا جائے ۔اسی طرح شہر کے اندر مٹن مارکیٹ کو کسی بھی طرح تجارتی مقاصد کے لیے استعمال میں نہ لایا جائے۔
یہاں سینکڑوں درخت لگائے جائیں۔ حبیب نالہ اور دوسرے نالوں کے گندے پانی کو صاف کرکے استعمال میں لایا جائے۔ وہاں پر کسی قسم کی تجارتی منصوبے نہ بنائے جائیں۔ اگر آلودگی کی مناسب روک تھام نہ کی گئی تو حکومت کو کوئٹہ سے دارالخلافہ منتقل کرنا پڑے گا۔
کوئٹہ میں صفائی کا فقدان
وقتِ اشاعت : December 22 – 2017