|

وقتِ اشاعت :   December 26 – 2017

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ دہشت گردی کے پیچھے غیرملکی ہاتھ کارفرما ہونے سے متعلق بات کی جاتی ہے بتایاجائے کہ آخر غیر ملکی ہاتھ کہاں سے آتے ہیں ،بلوچستان میں افرا تفری کاعالم ہے ۔

سیکورٹی کی صورتحال حوصلہ افزاء نہیں اگر دہشت گرد زرغون روڈ پر ریڈ زون میں حملہ کرسکتے ہیں تو وہ کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں ،حکمران ووٹ لینے کے بعد خود بنکروں میں چھپ جاتے ہیں جبکہ عوام کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیاجاتاہے ۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز میتھوڈیسٹ چرچ کے دورے کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پربلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹرڈاکٹرجہانزیب جمالدینی ، نواب زادہ حاجی میر لشکری رئیسانی ودیگر بھی موجود تھے ۔سرداراخترجان مینگل میتھوڈیسٹ پہنچے اور گزشتہ دنوں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے چرچ کا معائنہ کیا ۔

اس موقع پر ان کاکہناتھاکہ وہ حیران ہے کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو کرسمس کی تہوار پر مبارکباد دیں یا پھر گزشتہ ہفتے پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعہ پر ان کے ساتھ ان سے اظہار تعزیت کرے سرداراخترجان مینگل کاکہناتھاکہ سیکورٹی کی صورتحال حوصلہ افزاء نہیں بلکہ ابتر ہے ،اگر دہشت گرد ریڈزون میں آکر چرچ پر حملہ کرسکتے ہیں تو وہ کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں ،جب خاص لوگ محفوظ نہیں تو دوسروں کا کیا حال ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ سرحدوں کی کھڑی نگرانی کی ضرورت ہے ،ویسے تو ہر واقعہ کے بعد غیر ملکی ہاتھوں کے ملوث ہونے کی بات کی جاتی ہے بتایاجائے کہ آخر وہ غیرملکی ہاتھ کہاں سے آتے ہیں ؟

ان کاکہناتھاکہ دنیا میں مہذب اقوام عام عوام کو خصوصی تہواروں اور عام دنوں میں بھی بھرپورسیکورٹی دیاکرتے ہیں لیکن یہاں تو لوگوں کو دنیاوی سہولیات زندگی بھی میسر نہیں ،انہوں نے کہاکہ افسوسناک آمر یہ ہے کہ جن لوگوں کو عوام نے مینڈیٹ دیکر اقتدار تک پہنچایا وہی لوگ عوام کو سیکورٹی فراہم نہیں کررہے ۔

بلوچستان میں عجیب افرا تفری کاعالم ہے لگ رہاہے جیسے عوام کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیاہو ،حکمران ووٹ لینے کے بعد بنکروں میں چھپ جاتے ہیں جبکہ جن کے ووٹوں سے وہ منتخب ہوتے ہیں انہیں بے یار ومدد گار چھوڑ دیاجاتاہے ۔

دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے سر براہ سردار اخترجان مینگل نے کہا کہ حکمرانوں کو بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ کرنے کی اتنی جلدی نہ جانے کیوں ہے بلاوجہ کسی رکن اسمبلی کی انگلی کاٹ کر اسے شہیدوں میں شامل کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو لوگ ڈھائی سال تک ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ نہ کر سکے ان سے بلوچستان کے مسائل کے حل نا انصافیوں کے خاتمے اور ا س سر زمین کی ترقی کی کیا توقع کی جا سکتی ہے ۔

آئین کی بالادستی جمہوری روایات اور قانون سازی سے نابلد حکمران محض دعوؤں پر اکتفا کئے ہوئے ہیں نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کی پارٹی میں شمولیت بلوچستان نیشنل پارٹی کی سیاسی جہد میں ایک اہم پیشرفت ہے پارٹی کارکنوں نے جس طرح نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی اور ان کے رفقاء کو پارٹی میں خوش آمدید کہا یہ کارکنوں کی سیاسی سنجیدگی کا مظہر ہے ۔

ان خیالات کا انہوں نے ’’آن لائن‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہاکہ اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ آئینی حیثیت کا حامل ہوتا ہے مگر بلوچستان اسمبلی گزشتہ ڈھائی سال سے اس آئینی عہدے سے محروم رہی اب اچانک نہ جانے حکمرانوں کو ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر کسی رکن اسمبلی کو براجمان کرنے کی اتنی جلدی کیوں ہے کہ محض چند ماہ کے لئے کسی رکن اسمبلی کو ڈپٹی اسپیکر کے فرائض سونپے جارہے ہیں۔

افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ڈھائی سال کے طویل عرصہ میں موجودہ حکمرانوں سے ایک ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کا فیصلہ نہ ہو سکا ایسے اہل اقتدار سے بلوچستان کی ترقی ناانصافیوں کے خاتمے ‘ حقوق کے حصول ظلم و زیادتی کے رویہ کے خاتمے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ۔

میں سمجھتا ہوں کہ دراصل ڈپٹی اسپیکر کے عہدے میں کوئی چارم نظر نہیں آرہا ہو گا یہی وجہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی نشست خالی پڑی رہی کیونکہ عوام کی طرز زندگی کو تبدیل کرنے کے دعوے کرنے والے ایوانوں میں اس عوام کو ہی بھول چکے ہیں اور انہیں صرف مراعات پروٹوکول اور وی آئی کلچر کی اہمیت کا احساس ہے اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر شاید اتنا سب کچھ میسر آنا ممکن نہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔

حکمران صوبے کو عالمی سطح پر کرپشن میں صف اول پر لانے میں اتنے مگن تھے کہ انہیں ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر کسی رکن اسمبلی کو فائز کرنے کا خیال ہی نہیں آیا انہوں نے کہا کہ ایک جانب بلوچستان میں حکمران دودھ اور شہد کی نہرے بہانے کے دعویدار ہیں جبکہ دوسری جانب حقیقت ان کے دعوؤں پر بین کرتی نظر آرہی ہے ۔

بلوچستان میں بیروزگاری ‘ افلاس ‘ پیاس اور غربت نے عوام کو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کررکھا ہے جبکہ دوسری جانب وسائل سے مالا مال سرزمین پر حکمرانی کرنے والوں کی طرز زندگی تبدیل ہوتی جارہی ہے اور وہ امیر سے امیر تر ہو چکے ہیں ۔

جب ایوانوں میں بیٹھے لوگ ہی عوام کے مسائل سے غافل ہونگے تو بہتری کی امید کرنا بے سود ہے آنے والے انتخابات میں عوام کے سامنے ان حکمرانوں کو ایک بار پھر پیش ہونا ہوگا ۔

تو کم از کم وہ اپنے ساتھ اتنی رعایت کرلیں کہ جب وہ عوام کے دروازے پر ووٹ مانگنے جائیں تو انہیں تلخ رویوں کا سامنا نہ کرنا پڑے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب یہ وقت گزر چکا بلوچستان کے عوام نے ان حکمرانوں کی خدمات سے قوم پرستی اور پیٹ پرستی میں فرق پہنچان لیا ہے اور اب یہ فرق آنے والے انتخابات میں ان کے لئے بہت سی مشکلات پیدا کرنے والا ہے جو ان کے رونھگٹے کھڑے کرنے کے لئے کافی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جس انداز میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے کارکنوں اور تمام ساتھیوں نے نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی اور ان کے رفقاء کی شمولیت کی تقریب کا انعقاد کیا اور بھرپور ڈسپلن کا مظاہرہ کیا یہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے کارکنوں کے باشعور ‘ سیاسی فکر کے مالک ہونے کا ثبوت ہے ۔

انہوں نے اپنے سیاسی طرز فکر سے یہ پیغام دے دیا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی جمہوری اقدار کی پاسداری پر یقین رکھتی ہے کارکنوں پارٹیوں کے تمام ساتھیوں کی محنت اور سیاسی جہد پر میں ان کا مشکور ہوں۔