حکومت نے کئی ایک شعبوں کی بہتری میں نہ صرف دلچسپی کا اظہار کیا ہے بلکہ بعض شعبوں میں قابل قدر کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا ہے مگر ماہی گیری کا شعبہ جو ملک کے لیے 6ارب ڈالر غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کو گزشتہ 70سالوں سے نظر انداز کیا گیا ہے۔
پاکستان بھر کی 12سو کلومیٹر طویل ساحلی پٹی قدرتی دولت سے مالا مال ہے مگر اس کو کرپٹ عناصر اور ٹرالر مافیا کے حوالے کیا گیا ہے۔ یہ ساحلی پٹی طویل ہے اور اگر ایرانی بلوچستان کے ساحلی پٹی کو مکران کے ساحل سے ملادیا جائے تو یہ 3ہزار کلومیٹر طویل پٹی بنتی ہے جس پر ٹرالر مافیا کا راج قائم و دائم نظر آتا ہے۔
پاکستان کے اندر بلوچستان کا حصہ 80فیصد سے زیادہ ہے جبکہ ایرانی بلوچستان سو فیصد ساحلی علاقہ بلوچ ساحل پر مشتمل ہے جو ساحل مکران کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پاکستانی بلوچستان میں ساحل پر 35سے زائد ماہی گیروں کی بڑی بستیاں آباد ہیں جہاں حکومت نے کسی قسم کی سہولیات فراہم کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔
نہ ہی 70سال کے عرصہ دراز میں ساحلی ترقی کا منصوبہ ملک کے کسی بجٹ میں سامنے آیا ۔ حکومت بلوچستان ہر سال ملازمین کی تنخواہیں اور الاؤنسز ادا کرتی رہتی ہے۔ زندگی کے لئے پانی ضروری ہے گوادر جیسی اہم ترین بندرگاہ کی شہریوں کے لیے پانی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔
گزشتہ ادوار میں دو سابق وزراء نے ایک ایک ارب روپے ہڑپ کرلیے اور کہا کہ وہ ایک ایک پلانٹ گوادر میں لگائیں گے تاکہ سمندری پانی کو پینے کے قابل بنایا جاسکے۔ قومی احتساب بیورو کو نظر ہی نہیں آتا کہ گوادر میں لگنے والے یہ دو پلانٹ کہاں ہیں اور اگر ہیں بھی تو وہ کام کیوں نہیں کررہے ۔
چونکہ دونوں سابق وزراء کا شمارانتہائی پسندیدہ شخصیات میں ہوتا ہے اور ان کی مستقبل میں بھی ضرورت پڑسکتی ہے اس لئے ان کے جرائم کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ گزشتہ دس سالوں سے لوگوں کو ایک گیلن پانی نہیں ملا اور سرکاری خزانے سے دو ارب روپے ہڑپ کرلئے گئے۔ ساحلی علاقے کے یہ دو بڑے اسکیم تھے جو تباہ کیے گئے۔
دوسری جانب 8ہزار سے زائد ٹرالرز بلوچستان کے سمندری حدود میں شکار کررہے ہیں اور تباہ کن جال استعمال کررہے ہیں جس سے میرین لائف یا سمندری حیات کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جارہا ہے۔
بلوچستان حکومت کے پاس ان کو پکڑنے کے وسائل نہیں ہیں لیکن ساحل مکران میں پاکستان نیوی، کوسٹ گارڈ، میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کے پاس تما م وسائل موجود ہیں۔ بلوچستان کے عوام خصوصاً غریب ماہی گیر یہ ضرور توقع رکھتے ہیں کہ زمانہ امن میں بھی یہ طاقتور ادارے بلوچستان کے سمندری حیات کا ضرور دفاع کریں گی اور ان کو ہر قیمت پر تباہی سے بچائیں گی۔ کیونکہ یہ دولت ملک کیہے اس کی حفاظت ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ سمندری حیات کی حفاظت کرے ۔
ضروری ہے کہ سمندر ی حدود کی حفاظت پر مامور سیکورٹی ادارے تمام غیر قانونی طور پر شکار کرنے والوں کو گرفتار کریں اور ان کے ٹرالر ضبط کیے جائیں ۔یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ساحل مکران پر موجود تمام دفاعی اداروں سے رابطہ کرے اور ان سے مدد طلب کرے کہ وہ ملکی سمندری حیات کی حفاظت کریں اور ان تمام ٹرالروں کو قبضہ میں لے کر صوبائی حکومت کے حوالے کریں تاکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
سمندری حیات ایک قیمتی خزانہ ہے جو قدرت کی طرف سے بلوچستان اور اس کے عوام کو عطا کیا گیاہے۔ اس کے بہتر استعمال سے ملک سالانہ دس ارب ڈالر کماسکتا ہے اور ساتھ ہی ملک بھر میں پروٹین کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔
ساحل مکران میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ بلوچستان کے لاکھوں لوگوں کو باعزت روزگار فراہم کرسکے بشرطیکہ حکمران ایماندارہوں اور اپنے عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہوں۔
مکران میں غیر قانونی ماہی گیری
وقتِ اشاعت : December 26 – 2017