پاکستان کی سیاست میں اتارچڑھاؤ ہمیشہ آتے رہے. چاہے وہ 70ء کی دہائی ہو،یا پھر 1999ء سے لیکر 2008 ء تک کا دورانیہ جب پاکستان میں سیاسی حالات انتہائی مخدوش تھے کیونکہ اس وقت میاں محمدنواز شریف کی حکومت کو 1999 ء میں ختم کردیا گیا۔پھر پرویز مشرف حکومت پربراجمان ہوئے۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ سیاسی عدم استحکام کے قصور وار یہی سیاسی جماعتیں ہی رہی ہیں جن کی آپس کے اختلافات نے سیاسی بحرانات کو جنم دیااور غیر جمہوری قوتوں نے اقتدار پر قبضہ کیا۔
2008 ء پاکستان کی سیاست کا اہم باب اس لئے ہے کہ اسی سال تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحدنظر آرہی تھیں ۔مشرف حکومت کے خلاف ایک گرینڈالائنس بن چکا تھا اور اسی دوران مسلم لیگ ن کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس لندن میں منعقد کی گئی جس میں اہم فیصلے کئے گئے جس میں سب سے بڑا فیصلہ مشرف کے زیر اثر الیکشن کامکمل بائیکاٹ تھا۔
اس فیصلے پر مسلم لیگ ن،پی ٹی آئی سمیت دیگرسیاسی،مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے اتفاق کیا مگر لندن کانفرنس میں شریک مرحوم امین فہیم اور شیریں رحمن برائے راست شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ رابطے میں تھے۔
جب اس اہم فیصلہ سے بینظیر بھٹو کو آگاہ کیا گیا تو انہوں نے اختلاف رکھتے ہوئے جنرل الیکشن میں بھرپور شرکت کا فیصلہ کیا ۔بہرکیف پیپلزپارٹی کے اس اہم فیصلے کے بعد لندن کانفرنس کو لیڈ کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن بھی خود اپنے فیصلہ کی نفی کرتے ہوئے جنرل الیکشن میں حصہ لینے کی تیاری شروع کردی اور اس میں دیگر جماعتیں جو لندن کانفرنس میں شریک تھیں، وہ الیکشن سے باہر رہیں کیونکہ وہ مسلم لیگ ن کے یوٹرن سے لاعلم تھے ۔
مگر اس کے بعد پی ٹی آئی آج تک ن لیگ کے ساتھ کسی بھی محاذپر ایک ساتھ دکھائی نہیں دی جس کا اندازہ موجودہ حالات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ 2008 ء کو شہیدبینظیر بھٹو وطن جب وطن پہنچیں توان کا استقبال بھرپور طریقے سے کیا گیا اور یہ بھی طے تھا کہ ملک کے نئے وزیراعظم بینظیر بھٹو ہی بنیں گی کیونکہ سیاسی حالات، عوامی جھکاؤ مکمل بینظیر بھٹو کے ساتھ تھیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بینظیر بھٹو کی سیاسی بصیرت اور ایک بہترین پالیسی ساز ہونے سے کوئی ذی شعورانکار نہیں کرسکتا اپنے دور حکومت کے دوران انہوں نے ملکی داخلی وخارجی پالیسی جس طرح مرتب کی وہ قابل تعریف ہے۔
بینظیر بھٹو عوام میں خاصی مقبول رہیں جس کی وجہ سے آج بھی پیپلزپارٹی کا ایک بڑا ووٹ بینک بینظیر بھٹو کی مرہون منت ہے۔ 2008 ء کے دوران بینظیر بھٹو نے ملک گیر بھرپور الیکشن مہم شروع کردی اور عوام کی جانب سے جس طرح انہیں خوش آمدید کہاگیا شاید ہی کسی لیڈر کا اس طرح استقبال کیا گیا ہو، راولپنڈی لیاقت پارک میں عوامی ہجوم کے درمیان بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا۔
اس طرح ایک بار پھر ملک ایک عظیم لیڈر سے محروم ہوگیا۔اس سانحہ کے بعدیہ تجزیے کئے جارہے تھے کہ ملک اب ایک نئے بحران کی طرف چلاجائے گا اور الیکشن وقت پر نہیں ہونگے پیپلزپارٹی الیکشن میں حصہ نہیں لے گی مگر ’’پاکستان کھپے‘‘ کے نعرے نے ایک بار پھر عوام کو اپنی جانب راغب کیا اور مفاہمت ومصالحتی سیاست جو بینظیر بھٹو کا نعرہ تھا اسے سابق صدرآصف علی زرداری نے اپنایا اور الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے حکومت بنائی۔
مگر پیپلزپارٹی کو بڑے ملکی بحرانات کا سامنا تھا جنہیں حل کرناانتہائی ضروری تھا۔ان بحرانات میں بلوچستان سرفہرست تھا اسی دوران بلوچستان پیکج کا اعلان کیا گیا ،مذاکرات کے دور چلے مگر پیپلزپارٹی اپنے وہ اہداف حاصل نہ کرسکی ۔
2008 میں اگر بینظیر بھٹو کی شہادت رونما نہ ہوتی تو شاید آج حالات کچھ اور ہی ہوتے کیونکہ بہترین لیڈر شپ ملک کو اندرونی وبیرونی چیلنجز سے نکالنے کیلئے اہم کردار ادا کرتی ہے ۔بہرحال 2008 ء کی سیاست اور آج کے بدلتے سیاسی حالات کسی بھی طرح یکساں نہیں ۔
ملکی سیاسی جماعتیں آج ٹکراؤ کا شکار نظر آتی ہیں اس لئے اس سال کو ملکی سیاست میں اہم قرار دیاجارہا ہے ۔اگر ایک بار پھر ملکی مفادات کوسامنے رکھتے ہوئے سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوجائیں تو آنے والے چیلنجز کا مقابلہ بھرپور طریقے سے کیاجاسکتاہے۔