|

وقتِ اشاعت :   January 2 – 2018

پاکستان عوامی تحریک کے زیرِ اہتمام حزبِ اختلاف کی بڑی سیاسی جماعتوں پر مشتمل کل جماعتی کانفرنس کے شرکاء نے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کوسانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے کے لیے سات جنوری تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ کانفرنس میں پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق سمیت دیگر جماعتوں نے شرکت کی۔

کانفرنس کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے رہنماء ڈاکٹر طاہر القادری، پیپلز پارٹی کے رہنماء قمر الزمان کائرہ اور پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمے داروں کے استعفیٰ کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن تک استعفے نہ آنے پر تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل اسٹیرنگ کمیٹی اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ 

ڈاکٹر طاہر القادری نے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ عوامی عدالت بھی لگ سکتی ہے، احتجاج بھی ہو سکتا ہے، دھرنا یا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے مگرآئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے۔

یاد رہے کہ جون 2014 میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے رہنما ء طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر اُن کے حامیوں اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اعلامیے کے مطابق جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کے تحت شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قتل عام کے ذمہ دار ہیں اور اے پی سی تمام صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان کے استعفوں کے مطالبے پر مبنی قرارداد منظور کروائیں۔

اے پی سی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کسی اندرونی اور بیرونی دباؤ کے تحت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان اورقومی دولت لوٹنے والے شریف خاندان سے کسی قسم کا کوئی این آر او یا مصالحت نہ کی جائے اورنہ ہی ایسے کسی بھی ماورائے قانون ریلیف کو قبول کیا جائے گا۔

کل جماعتی کانفرنس میں سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر از خود نوٹس لے۔ لاہور ہائی کورٹ نے حکومتِ پنجاب کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ منظرِ عام پر لانے کا حکم دیا تھا۔پاکستان عوامی تحریک کے مطابق اس کانفرنس میں 40 سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

اس سے قبل بھی پاکستان عوامی تحریک نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران کے استعفے کے لیے 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن دی تھی۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کل جماعتی کانفرنس کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے حکومت ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے بات چیت کیلئے راستہ ہموار کرے تاکہ سیاسی ماحول میں پیدا ہونے والی تناؤ میں کمی آئے کیونکہ اس وقت بدلتے عالمی وملکی سیاسی حالات مزید کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتے۔ 

حالات کا درست ادراک کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں بھی مذاکرات کا راستہ اپنائیں اور ماحول کو سازگار بنائیں تاکہ سیاسی انتشار سے بچا جاسکے۔ 

اس وقت ملک جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہی ہے وہیں دشمن عناصر پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی سازشوں میں لگے ہوئے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اتحاد اور ہم آہنگی کے لیے مل کر کام کیا جائے، یہی وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضہ ہے۔