وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر خارجہ خواجہ آصف، وزیر دفاع خرم دستگیر ٗ چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات ٗ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل سہیل امان اور پاکستان نیوی کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی سمیت مشیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری شریک ہوئے ۔
قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان پرسخت مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امریکی صدر کے الزامات کے باوجود جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گا ۔ پاکستان کو افغانستان میں مشترکہ ناکامی کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اتحادیوں پر الزام لگا کر افغانستان میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔
افغانستان میں سیاسی محاذ آرائی ، کرپشن اور منشیات بڑے چیلنجز ہیں ٗ افغانستان میں حکومتی عملداری کے باہر علاقے بین الاقوامی دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے بھرے پڑے ہیں ٗ ان پناہ گاہوں سے ہمسایہ ممالک سمیت پورے خطے کو خطرات ہیں تاہم پاکستان افغانستان میں امن عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے ۔
ٗ پاکستانی قوم اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھنا اور اپنے وطن کی حفاظت کرنا جانتی ہے ٗباہمی اعتماد کے ساتھ ہی آگے بڑھنے سے افغانستان میں پائیدار ومستحکم امن قائم ہوسکتا ہے ٗ پورے خطے کے امن واستحکام کیلئے کام کرتے رہیں گے۔
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان کے بعد امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کو اجلاس میں شرکت کیلئے خصوصی طورپر بلایا گیا ۔اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر کی جنوبی ایشیاء پالیسی کے اعلان کے بعد امریکی حکام سے ملاقاتیں ہوئیں ان ملاقاتوں میں کہا گیا کہ باہمی اعتماد سازی کے ساتھ آگے بڑھنا ہی بہترین راستہ ہے ۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف غیر متزلزل جنگ لڑی ہے اورتمام دہشت گرد گروپوں کیخلاف بلا امتیاز کارروائی کی ہے ۔ بیان میں واضح کیا گیا کہ قیام امن کیلئے پاکستان کا عزم غیر متزلزل ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میںآج بھی عالمی اتحاد کی بھرپور مدد کررہے ہیں اورہر ممکن سہولیات فراہم کررہے ہیں۔
کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کے انسداد دہشت گردی آپریشن سے خطے میں القاعدہ کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ دہشت گردی کیخلاف تعاون کا نتیجہ ہے کہ پاکستان آج بھی نتائج بھگت رہا ہے ۔پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ اپنے وسائل اور معیشت کی قیمت پر لڑی ہے ۔
ہزاروں قربانیوں اور شہداء کے خاندانوں کے درد کا کوئی اندازہ تک نہیں کر سکتا ۔ قربانیوں اور شہداء کے درد کا مالی قدر سے موازنہ کرنا ممکن نہیں ۔
امریکی قیادت کے بیانات پاکستانی قوم کی دہائیوں سے دی جانیوالی قربانیوں کی نفی ہے اور ایسے بیانات دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کیلئے دھچکا ہیں ۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں واضح بیانیہ دیکر پاکستان نے یہ بات دنیا پر آشکار کردیا کہ وہ کسی صورت دباؤ میں نہیں آئے گااور یہ بھی واضح کردیا کہ امریکی صدر کا بیان زمینی حقائق کے منافی ہے ۔
پاکستان نے علاقائی امن کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا مگر جس طرح سے قربانیوں کوفراموش کیاجارہا ہے وہ بدنیتی پر مبنی ہے۔
پاکستان ہمیشہ پڑوسی ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کا خواہاں رہا ہے مگر اس کے باوجود مداخلت کے ذریعے پاکستان میں بدامنی اور انتشار کی کیفیت پیدا کی گئی ۔
دنیا کو تسلیم کرنا چاہئے کہ جتنی قربانیاں پاکستان نے ایک اتحادی کے طور پر دیں شاید کسی اورملک نے دی ہو۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کا بیانیہ امریکہ کو کھراجواب ہے اور اس بات کو امریکہ بھی سمجھ لے کہ پاکستان اب کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے گا بلکہ اپنی امن پالیسی کو برقراررکھتے ہوئے خطے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔