|

وقتِ اشاعت :   January 11 – 2018

بلوچستان کے مستعفی ہونے والے وزیراعلیٰ و مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے صدر و چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہاہے کہ زبردستی اقتدار سے چمٹے رہنامیرا شیوہ نہیں، مجھے طاقت اور اقتدار اسمبلی نے دی ہے، مجھے محسوس ہورہاہے کہ کافی تعداد میں اسمبلی کے اراکین میری قیادت سے مطمئن نہیں ہیں اس لئے میں ان پر زبردستی مسلط نہیں ہونا چاہتا ،اقتدار آنی جانی چیز ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے موقع دیا اور عوام نے مناسب سمجھا تو میں اپنے عوام کی خدمت جاری رکھوں گا ۔ نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا کہ دو ہفتے سے صوبے میں سیاسی حالات میں بہت تیزی آئی ہے اس میں خاص طور پر چند ساتھیوں کی جانب سے میرے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ۔

ہم نے ہرممکن کوشش کی کہ انکے تحفظات دور کریں، ہمارے ساتھیوں نے بھی بھر پور کوشش کی ،ہماری پارٹی کی مرکزی قیادت وزیراعظم پاکستان بھی کوئٹہ آئے لیکن بدقسمتی سے ہم کامیاب نہ ہوسکے ۔انہوں نے کہاکہ میں نے پچھلے دو سال کے عرصے کے دوران ہرممکن کوشش کی کہ نہ صرف اتحادی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلوں بلکہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی آن بورڈ رکھوں۔

اکثر سرکاری تقاریب میں اپوزیشن لیڈر بھی میرے ساتھ ہوا کرتے تھے جس پر میڈیا کو خوشگوار حیرت ہوا کرتی تھی ۔انہوں نے کہاکہ سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ اس دوران ہم نے بھر پور کوشش کی کہ صوبہ میں حکومتی عملداری قائم کریں اور صوبے میں امن بحال کریں، اللہ کا شکرہے کہ آج صوبے میں امن وامان کی حالت بہت بہتر ہے اور اسکی گواہی آپ سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا ۔

میں تمام متعلقہ اداروں خاص طورپر بلوچستان پولیس ،فرنیٹئر کور بلوچستان ،لیویز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مشکور ہوں کہ انہوں نے دن رات محنت کی اور ہمارے بچوں کے مستقبل کو بچایا ۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے پہلی دفعہ اپنے ترقیاتی پروگرام میں اپنے شہروں خاص طورپر ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز کی بہتری پر توجہ دی اور اس کیلئے خطیر رقم مختص کی اور یہ رقم اپنے سیاسی دوستوں کی ترجیحات کی بجائے متعلقہ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو اس کا ذمہ دار مقرر کیا تاکہ ہم پر اور ہمارے سیاسی دوستوں پر یہ الزام نہ آئے کہ ہم ترقی مخالف ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ ان دوسالوں میں صوبے کے ہر ضلع میں ترقیاتی عمل نظر آرہاہے۔

میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا آپ خود متعلقہ اداروں سے اس دور کے ترقیاتی کاموں کی تفصیل معلوم کرسکتے ہیں ۔نواب ثناء اللہ زہر ی نے کہاکہ یقیناًمخلوط حکومت چلانا اتنا آسان نہیں ہوتا اگر چہ ہم اکثریتی جماعت تھے لیکن پھر بھی ہم نے کوشش کی کہ سب کو ساتھ لیکر چلیں میں خاص طورپر اپنے اتحادیوں کا شکر گزارہوں کہ انہوں نے میرا بھر پور ساتھ دیا ۔

ثناء اللہ زہری کے استعفیٰ کے بعد اب سب کی نظریں نئے وزیراعلیٰ اور کابینہ کی طرف لگی ہیں امید و توقع کی جارہی ہے کہ نئے وزیراعلیٰ اور کابینہ بلوچستان میں ا من وامان سمیت ترقیاتی کاموں کو اولین ترجیحات میں شامل کرینگے ۔

چونکہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے والے اراکین کا شکوہ یہی رہا ہے کہ انہیں اس پورے دور میں نظرانداز کیاگیا اور ان کے علاقوں میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہواکیونکہ ساری توجہ اور ساری عنایات صرف ایک اتحادی جماعت کے لیے مختص تھیں اور اصل حکومت اسی جماعت کی تھی۔

وزیر اعلیٰ اس کے سامنے بے بس تھے، دستخط وزیر اعلیٰ کے ہوتے تھے جبکہ سارے اختیارات اس اتحادی جماعت کے قبضے میں تھیں۔بہرحال اب امید کی جارہی ہے کہ چیزوں میں توازن رکھا جائے گاکسی خاص جماعت پر تمام نوازشیں نہیں ہونگی اور سب کو ساتھ لے کر ایک نئے سفر کا آغاز کیا جائے گا۔