گزشتہ ہفتے کے دوران نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کا اس وقت خاتمہ ہوا جب وزیراعلیٰ اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہوگئے کیونکہ ان کے خلاف ان کی اپنی پارٹی اور بعض اتحادی اراکین اسمبلی نے بغاوت کی اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیا۔ جوں جوں دن گزر تے گئے ان کے مخالفین میں اضافہ ہوتا گیا۔
آخری دنوں میں اتحادیوں کے علاوہ صرف چھ مسلم لیگی اراکین میدان میں رہ گئے جس کی بنا ء پر نواب ثناء زہری نے زیادہ بہتر فیصلہ کیااور اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ یوں اسمبلی میں غیر ضروری بحث و مباحثہ اور تماشہ نہ بننے دیا۔ اکثر تجزیہ کاروں اور سیاسی مبصرین نے ان کے فیصلے کو سراہا ۔
انہوں نے جمہوری عمل کو مکمل ہونے دیا ، نئی حکومت قائم ہوگئی اور بلوچستان میں سیاسی بحران پیدا نہیں ہوا، اس کا سہرا نواب ثناء اللہ زہری کو جاتا ہے جنہوں نے ہمیشہ کی طرح کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا اور اپنے عہدے سے مناسب وقت پر مستعفی ہوگئے۔ اب نئی حکومت قائم ہوچکی ہے اس کے پاس وقت انتہائی کم ہے یعنی چندہفتے ہیں ماہ اور سال نہیں۔ موجودہ اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے والی ہے ، اس کے بعد نئے انتخابات کرانے کے لئے عبوری حکومتیں قائم ہونگی ۔
اس لیے موجودہ حکومت کو چائیے کہ وہ چھوٹی اور مختصر مدت کی منصوبہ بندی کرے ، طویل منصوبہ بندی میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کرے او رساری توجہ ضروری اور اہم مسائل پر دے ۔ اس میں قانون کی حکمرانی کو ہمیشہ کی طرح اولیت دی جائے دوسری اہم ترین چیز یہ کہ اس مختصر عرصے کے دوران کرپشن کم سے کم ہو تاکہ ملکی وسائل عوام کے کام آئیں ۔
ان تمام حضرات پرجن کی ساکھ عوام میں زیادہ اچھی نہیں ہے ، خصوصی نگاہ رکھی جائے تاکہ وہ موجودہ حکومت کی بدنامی کا سبب نہ بنیں۔ جہاں تک وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کا تعلق ہے وہاں دہائیوں سے براجمان سرکاری افسران کا فوری تبادلہ کیاجائے یہی لوگ ہیں جو نواب اسلم رئیسانی او رنواب ثناء اللہ زہری اور ڈاکٹر مالک کی بدنامی کا سبب بنے ۔
ایسے تمام افسران کو اپنے اپنے محکموں میں واپس بھیجاجائے اور نئے ،زیادہ قابل اور ایماندار لوگ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں تعینات کیے جائیں ۔ کیونکہ موجودہ افسران کی اکثریت حکومت ‘و زیراعلیٰ اور عوا م الناس کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی ہے ۔
بعض اخبارات کے مدیروں سمیت اکثر صحافیوں کو بھی ان سے ہمیشہ شکایت رہی ہے ۔ لہذا ایسے عناصر کا سالوں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں براجمان رہنا موجودہ حکومت کے لئے بھی نیک شگون نہیں ہوگا۔ سب سے پہلے نئے وزیراعلیٰ اپنے گھر کی صفائی کریں اور بعد میں دوسرے معاملات پر توجہ دیں۔
تاہم کرپشن کے خلاف کارروائی کو اولیت ملنی چائیے خصوصاً ان کرپٹ عناصر کو وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے باہر نکال دیا جائے جن کی ساکھ انتہائی خراب ہے اور جن کے خلاف شکایات زیادہ ہیں۔ ایک اور اہم ترین بات یہ کہ ایم پی اے اور وزراء کے پسندیدہ افسران کو ان کے حلقہ انتخاب میں تعینات نہ کیا جائے، کم سے کم ایم پی اے اور وزراء کے سفارش کنندہ افسرا ن کو ہمیشہ کے لئے بلیک لسٹ کیاجائے جو اثر ورسوخ استعما ل کر کے اچھی جگہ پر تعیناتی کی خواہش رکھتے ہیں ۔
سفارش کو ایک منفی عمل تصورکیاجائے تاکہ افسران صرف اور صرف حکومت کے تابع رہیں نہ کہ شخصیات کے خواہ وہ ایم پی اے ہوں یا وزیر ۔ اگر موجودہ حکومت نے اس قلیل عرصے میں یہ کام کیے تو اس کی نیک نامی ہوگی اور عوام میں اچھی ساکھ بنے گی۔