آج کل ملک دوبارہ احتجاج کے گرفت میں ہے ۔ ایک بڑا احتجاجی جلسہ لاہور کے مال پر کای گیا جس سے طاہر القادری کے علاوہ آصف علی زرداری اور عمران خان نے بھی خطاب کیا اور نوازشڑیف اورمسلم لیگ ن کی حکومت کو نشانہ بنایا ان تینوں رہنماؤں نے اعلان کیا کہ وہ تخت لاہور کی حکومت کو الٹ دیں گے اور شریف برادران کو سیاست سے بے دخل کردیں گے ۔
حسب عادت شیخ رشید نے ایک نیا مگر کارگر شوشہ چھوڑا کہ وہ قومی امسبلی سے استعفیٰ دے رہے ہیں ۔ اور یہ بھی کہا کہ وہ ’’اسمبلی پارلیمان‘‘ پر لعنت بھیجتے ہیں بعض تجزیہ نگار اور سیاسی مبصرین اس کو ایک اشارہ سمجھ رہے ہیں کہ کسی بھی وقت دو بڑی پارٹیاں ‘ تحریک انصاف اور پی پی پی پارلیمان خصوصاً قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے کر کوئی بڑا سیاسی بحران پیدا کر سکتے ہیں ۔ جس سے حکومت مجبور ہوگی کہ وہ وقت مقررہ سے پہلے انتخابات کرائے ۔
پاکستان عوامی تحریک کے احتجاجی جلسہ سے عمران خان اور آصف زرداری کی شرکت معنی خیز تھی اور یہ اشارہ بھی دیا کہ دونوں پارٹیاں ایک بات پر متفق نظر آتی ہیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کا کم سے کم پنجاب میں خاتمہ کیاجائے اور پارٹی کو اپنے گڑھ سے بے دخل کیاجائے ۔ شاید یہ کام احتجاجی سیاست سے کیاجائے گا۔
احتجاجی سیاست میں پی پی پی کا ثانی نہیں ہے اور عمران خان لوگ اکٹھے کرنے کے ماہر ہیں ۔ ونوں کا اتحاد اس بات پر صاف نظر آتا ہے کہ میاں شہباز شریف کی حکومت کا بھی خاتمہ کیاجائے ۔ ایسے صورت میں بلوچستان میں اس منصوبے کا حصہ بن سکتا ہے کہ بلوچستان ‘ سندھ اور کے پی کے کی اسمبلیاں توڑ دی جائیں اور وقت سے پہلے انتخابات کرائے جائیں ۔
پی پی پی اور آصف زرداری کا بلوچستان میں اثر ورسوخ میں اضافہ ایک سنگین بحران کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ متفقہ فیصلہ ہوتے ہی یہ تینوں اسمبلیاں تحلیل ہو سکتی ہیں ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک نئے انتخابات کا موجودہ صورت حال میں متحمل ہوسکتا ہے انتخابات کا واضح اور صاف مطلب یہ ہے کہ ایک بے یقینی کی صورت حال نیا حاکم کون ہوگا کون انتخابات جیتے گا ۔
ایسی صورت حال میں تجارت‘ صنعت ‘ سیاست اور مکمل طورپر حکمرانی مفلوج ہو کر رہ جائے گی تاوقتیکہ کہ الیکشن مکمل نہ ہوں ۔ نتائج سامنے نہ آجائیں اور نئی اور قابل قبول حکومت تشکیل نہ پائے ملک اس قسم کی غیر یقینی صورت حال کا متحمل نہیں ہوسکتا خصوصاً ایسے وقت میں جہاں پر پاکستان کے تعلقات امریکا سے غیر معمولی ہیں جس میں اعتماد کا فقدان واضح نظر آتا ہے بھارت کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور روز بروز اس میں زیادہ تلخی آتی جارہی ہے ۔
بھارت کے رہنماؤں اور فوجی جرنیلوں کی طرف سے پاکستان کو مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں ۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور اس کشیدگی میں روزانہ اضافہ ہورہا ہے آج ہی کے دن افغانستان کے صدر نے اپنا پرانا الزام دہرایا ہے کہ پاکستان افغانستان میں مداخلت کررہا ہے اور حکومت مخالف شدت پسندوں کی امداد کررہا ہے اور ان کو اپنی سرزمین پر پناہ دے رکھی ہے ۔
ایران کے ساتھ تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار ہیں ایران کے ساتھ تعلقات میں بد اعتمادی کی ایک مثال یہ ہے کہ ایرانی مسلح افواج آئے دن پاکستانی علاقوں پر گولہ باری کرتے رہتے ہیں کل ہی پنجگور کے علاقے میں ایرانی افواج کے راکٹ فائر کیے گئے ایسی صورت حال میں انتخابات خصوصاً قبل از وت ہوتے نظر آتے ہیں البتہ انتخابات کی تیاری الگ بات ہے کہ حلقہ بندیاں تیزی کے ساتھ ہوں ۔
اگر موقع ملے تو فوراً انتخابات کم سے کم مدت میں کرائے جائیں ۔ مجموعی سیاسی صورت حال میں احتجاجی سیاست ملک کے مفاد میں نظر نہیں آتی ۔ کوئی کم دورانہ کا احتجاج جس کا مقصد مخصوص ہدف حاصل کرنا ہو وہ الگ بات ہے مگر مجموعی طورپر پورے ملک کو مفلوج کرنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔