انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے تحت نہری سندھ اور پنجاب کے مابین پانی کے قضیہ کو زیر بحث لایا جاتا رہا ہے اور دوسرے فورمز پر بھی اس پر بات چیت ہوتی رہی ہے ۔
سرکاری اہلکار یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ صوبوں کے درمیان نہری پانی کی تقسیم کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کے تحت کیا جارہا ہے ۔
حیرانگی کی بات ہے کہ سابق وزیراعظم اور اس کی کابینہ کے زیادہ تر رفیق مشترکہ مفادات کونسل کے نام سے ہی نفرت کرتے تھے اور اسی وجہ سے سال میں ایک آدھ مرتبہ ایک آدھ گھنٹے کی کارروائی ہوتی رہی ۔
اس میں بھی پنجاب کے مفادات کو تحفظ دیا گیا دیگر چھوٹے صوبوں کو نظر انداز کیا گیا بلکہ وفاقی نظام میں سب سے کمزور ترین صوبے کے بنیادی حقوق کو پامال کیا جاتا رہا خصوصاً نہری پانی کے مسئلے میں۔
1991ء کے پانی تقسیم معاہدے کا تاج شہباز شریف کے سر ہے اس نے بلوچستان کے لئے دس ہزار کیوسک اضافی پانی دینے کا اعلان یا فیصلہ کیا تھا ۔1991ء سے لے کر آج تک دس ہزار کیوسک نہری پانی بلوچستان کو آج تک نہیں ملا ۔ بلوچستان تو دریائے سندھ کے نہری نظام کے آخری سرے پر ہے، درمیان میں پنجاب اور سندھ پانی استعمال کرتے ہیں بلوچستان کے لئے کچھ بھی نہیں بچتا ۔
بلوچستان میں نہری نظام کا بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہیں ہے اس لیے دوسرے صوبوں نے یہ دس ہزار کیوسک نہری پانی ’’ غیر قانونی ‘‘ طورپر استعمال کیا اس کی قیمت یا معاوضہ بلوچستان کو ادا نہیں کیا او رنہ ہی اس کے عوض نہری نظام کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیا گیا ۔2002میں جنرل پرویزمشرف کی حکومت نے کچھی کینال تعمیرکرنے کی منظوری دی جس کا مقصد سات لاکھ ایکڑ سے زائد زمین بگٹی قبائلی علاقے اور کچھی کے میدانوں کو سیراب کرنا تھا ۔
اس پر لاگت کا تخمینہ پچاس ارب روپے لگایا گیا یہ منصوبہ صرف تین سالوں میں مکمل ہوناتھا ۔ چونکہ یہ منصوبہ ملک کے صدر کے علاوہ فوج کے سربراہ کا بھی تھا تو اس پر عمل درآمدتو شروع ہوا لیکن تاخیری حربوں کا استعمال جاری رہا تاکہ یہ منصوبہ ناکام ہو اور دریائے سندھ کے نہری نظام سے بلوچستان کو پانی نہ ملے ۔ اس لیے نوکر شاہی نے بڑے پیمانے پر اس منصوبہ کو سبو تاژ کرنے کے لئے کرپشن کی سرپرستی کی ۔
تعمیرات انتہائی غیر معیاری تھیں اور اخراجات بھی پچاس ارب سے بڑھ کر 120ارب تک جا پہنچیں ، وہ بھی پہلے مرحلے کی تعمیرات کی مد میں۔ جبکہ کینال بھی صرف سوئی کے میدانی علاقے تک پہنچایا گیا ۔
اب جو نہر تعمیرکر کے صوبائی حکومت کے حوالے کیاگیا ہے یہ 72ہزار ایکڑ زمین صرف بگٹی قبائلی علاقے میں آباد کرے گی، باقی چھ لاکھ چالیس ہزارایکڑ بنجر زمین کا کیا ہوگا۔
کرپٹ حکمران اب تک 120ارب روپے ہڑپ کر چکے ہیں اور نہر کا صرف دس فیصد حصہ تعمیر ہوا ہے ۔ باقی نوے فیصد کی تعمیر کے معاملے پر حکومت وقت کو سانپ سونگھ گیا ہے وہ اس کا نام لینے کو تیا رنہیں۔ اب شاید حکومت معاشی اور مالی بحران کا بہانہ بناتے ہوئے مزید 100ارب روپے کچھی کینال پر خرچ نہیں کرے گی ۔
دوسری طرف بلوچستان کی وحدت اتنی کمزور ہے کہ اس کا ایک نمائندہ بھی وفاقی حکومت میں موجود نہیں ہے جو بلوچستان کے جائز اور قانونی حقوق کا تحفظ کرے۔ بلوچستان بغیر نمائندگی کے وفاق پاکستان کا حصہ ہے ، مشترکہ مفادات کونسل میں اس کے دو نمائندے تھے ، ان میں سے بھی ایک کو کم کردیا گیا۔
اب صرف اور صرف وزیراعلیٰ مشترکہ مفادات کونسل میں بلوچستان کی نمائندگی کریں گے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی بھی وزیراعلیٰ اور ا س کی حکومتوں نے بلوچستان کے جائز حقوق کا دفاع نہیں کیاسوائے نواب بگٹی شہید اور سردار اختر مینگل کے جس کی حکومت کو سازش کے تحت ہٹادیا گیا ۔
کچھی کینال بہت بڑا منصوبہ ہے جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، ان کے مفادات کا کون تحفظ کر ے گا۔ گزشتہ بیس سالوں سے کسی صوبائی حکومت نے اس مسئلے کو نہیں اٹھایا اور تمام گزشتہ صوبائی حکومتوں نے وفاقی حکومت کی چاپلوسی کی اوربلوچستان اور اسکے عوام کے بنیادی حقوق کو قربان کیا ۔