|

وقتِ اشاعت :   January 22 – 2018

1970ء کی دہائی میں ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد بلوچستان کو صوبائی حیثیت ملا۔ صوبائی درجہ ملے تقریباً پچاس سال ہونے کو ہیں لیکن ابھی تک صوبے میں معاشی منصوبہ بندی کا کوئی واضح اور صاف تصور ابھر کر سامنے نہیں آیا کیونکہ کام چلاؤ کے تحت حکومتیں قائم ہوتی ہیں اورسالانہ پچاس ارب سے زائد گٹر اسکیموں یا ذاتی مفاد کی اسکیموں پر ضائع کئے جاتے ہیں۔

صوبے کی اتنی بڑی دولت ضائع ہورہی ہے یہ سب کچھ اختیار داروں اور بالا حکام کی مرضی کے مطابق ہورہا ہے۔

سابق سیکرٹری خزانہ پکڑا گیا اور اس کے گھر سے 70کروڑ روپے کی نقد رقم نکلی۔ ایک اور افسر جو سرحدی محافظ تھا ،اس کے گھر سے 13ارب روپے برآمدہوئے ۔ یہ کرپشن کی بڑی مثالیں ہیں۔ نیب اپنے بنیادی مشن یعنی کرپشن کو روکنے یا اس میں کمی لانے میں ناکام ہوگیاہے ۔

نیب بھی کام چلاؤ منصوبے کا حصہ بن گیا ہے لوگوں کو اس سے خیر کی توقع نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے اربوں روپے سالانہ ضائع ہورہے ہیں ۔ بلوچستان میں پورا نظام منصوبہ بندی ’’ کٹ پیسٹ ‘‘ سے چلایا جارہا ہے ۔

شاید ہی کوئی ایک ‘ دو افسران معاشی سوجھ بوجھ رکھتے ہوں اور کسی کمرے میں بندہوں، ہمیں نہیں معلوم کیونکہ ان کی کوئی کارکردگی اب تک سامنے نہیں آسکی ہے ۔ پورا صوبہ ‘ اس کا بجٹ اور اس کا سالانہ ترقیاتی پروگرام اسی ’’کٹ پیسٹ‘‘ کے نظام کے تابع ہے ، یہاں معاشی منصوبہ بندی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔

سابقہ وزیر منصوبہ بندی اور ترقیات نے اپنے چار سالہ دور میں سات آڈیشنل چیف سیکریٹری( ترقیات)تبدیل کیے ۔ اس بات کی تحقیقات کی جائے کہ اس وزیر کے اور اس پارٹی کے ممبران اسمبلی کے حلقہ انتخاب میں کتنی رقم صرف ہوئی اور اس کے مقابلے میں کتنی ترقی ہوئی ۔

یا دوسرے الفاظ میں ان منصوبوں کی بدولت کتنے لوگوں کو روزگار ملا اور صوبائی حکومت کی آمدن میں کتنا اضافہ ہوا ۔ ظاہر ہے کہ سالانہ اربوں روپے ان کے حلقہ انتخاب میں ضائع ہوئے یا طاقتور ترین افراد کے جیب میں چلے گئے ۔ آزاد ماہرین معاشیات کی یہ متفقہ رائے ہے کہ اسی فیصد اسکیمیں انتہائی غیر اہم ، ناقص اور (Junk)ہیں جن پر اسی فیصد رقم ضائع ہورہی ہے ۔

اگر بہتر اور ایماندارانہ معاشی منصوبہ بندی ہوتی تو بڑے بڑے برساتی نالوں اوردریاؤں پر بند باندھے جا چکے ہوتے اور بلوچستان میں پانی کی قلت نہیں ہوتی اور نہ ہی خشک سالی اور قحط اتنے وسیع پیمانے پر تباہی مچاتی ۔

لاکھوں ایکڑ زمین آباد ہوتی اور لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا۔ نئے شہر آباد ہوتے، ماہی گیری اور معدنی دولت کوترقی دی جاتی۔ موجودہ حکومت سے یہ توقع ہے کہ وہ جعلی اور ذاتی اسکیموں کے لیے فنڈزکے اجراء پر پابندی لگائے گی اور وسائل کو صرف اور صرف معاشی ترقی کے لئے استعمال کرے گی ۔نئے منصوبوں میں زرعی اجناس سے متعلق کارخانے لگائیں جائیں، تعلیم خصوصاًمعیاری پر زیادہ توجہ دی جائے۔

پڑھالکھا بلوچستان ہی اس سرزمین کی تعمیر و ترقی کا ضامن بن سکتا ہے اس کے لیے طویل مدتی معاشی منصوبہ بندی کی جائے، سالانہ ترقیاتی پروگرام پر انحصار نہ کیاجائے کیونکہ بعض حضرات نے اس کو جلد سے جلد لوٹ مار کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔

موجودہ حکومت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ کم سے کم منشی حضرات سے معاشی منصوبہ بندی کاکام نہ لیاجائے بلکہ ماہرین معاشیات کی ٹیم تشکیل دی جائے جو معاشی منصوبہ کریں اور منصوبوں کے مطابق بلوچستان کو ترقی دی جائے۔

بلکہ اس بات کی بھی تیاری ہونی چائیے کہ آئندہ چند سالوں میں سندھک‘ ریکوڈک ‘ بلوچستان اسٹیل ملز اور دیگربڑے بڑے منصوبے حکومت بلوچستان خود چلانے کا اہل ہوسکے۔امید ہے کہ چین سے سندھک کا معاہدہ ختم کیا جائے گا اور حکومت بلوچستان اس منصوبے کو خود چلائے گی۔ اس لیے ماہرین معاشیات کی ٹیم ابھی سے تیار کی جائے جس میں منشی اور ٹھگ حضرات نہ ہوں ۔