|

وقتِ اشاعت :   January 27 – 2018

لاہور: امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے واقعہ میں جمعیت کو ملوث کرنا بدنیتی کی بدترین مثال ہے۔جمعیت کے پروگرام کو سبوتاژ کیا اور اسٹیج گرایا گیا۔

حکومت پنجاب پورے واقعہ کی آزادانہ تحقیقات کرے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرکے جامعہ پنجاب میں پرامن تعلیمی ماحول کو بحال کیاجائے۔کچھ لوگ بلوچستان کا نام استعمال کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے طلبہ کو استعمال کررہے ہیں۔

اسلامی جمعیت طلبہ نے بلوچستان کے طلبہ کی تعلیم کے لیے فری ٹیوشن سینٹر کھولے جن میں پڑھنے والوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اب وہ قومی اداروں میں خدمات سرانجام د ے رہے ہیں ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعہ میں جمعیت کے ساتھ بڑی زیادتی کی گئی ہے۔جمعیت نے نئے آنے والے طالبعلموں کے لیے استقبالیہ کا اہتمام کیا تھا جسے سبوتاژ کیا اور طلبہ پر بدترین تشدد کیا گیا۔جمعیت نے ہمیشہ طلبہ کی راہنمائی کی ہے۔

حکومت اور انتظامیہ بجائے اس کے ذمہ داروں کو پکڑ کر سزا دیتی الٹا جمعیت کے کارکنوں کی پکڑدھکڑ شروع کرد ی گئی اور سینکڑوں طالب علموں کو حوالاتوں اور تھانوں میں بند کردیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پولیس نے مختلف جگہوں سے آؤٹ سائیڈر ز کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے اعتراف کیاہے کہ انہیں جمعیت کے پروگرام کو روکنے کے لیے خصوصی طور پر یونیورسٹی میں بلایا گیا۔

سینیٹر سراج الحق نے مطالبہ کیا کہ حکومت پنجاب اس واقعہ کی غیر جانبدار نہ اور آزادنہ تحقیقات کرائے اور ملوث لوگوں کوسزادی جائے تاکہ آئندہ کسی کو یونیورسٹی کے ماحول کو خراب کرنے کی جرات نہ ہو۔دریں اثناجرمنی کے قائم مقام سفیر جینز جوکیش نے پارلیمنٹ لاجز میں امیرجماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق سے ملاقات کی ۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے امیرجماعت اسلامی نے کہاکہ جرمنی کشمیر کے مسئلہ پر تماشائی کی بجائے کشمیریوں کو حق خو دارادیت دلانے میں آگے بڑھ کر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا خطہ بڑی اور تباہ کن جنگ کے خطرہ سے دوچار رہے گا۔دونوں ممالک کے عوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ مسئلہ کشمیر کا فوری حل تلاش کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جرمنی میں 50لاکھ مسلمان بستے ہیں جن میں پچاس ہزار پاکستانی ہیں۔ ہم جرمنی کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم اور مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جرمنی فلسطین اور کشمیر کے دیرینہ مسائل کے حل میں اپنا موثر کردار ادا کرے اور ٹرمپ کے بیانات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں بہتری کے لیے کوشش کی جائے۔امیر جماعت اسلامی نے جرمنی کی طرف سے شامی مہاجرین کی پذیرائی اور مہمان نوازی پر جرمنی کا شکریہ ادا کیا۔