اسٹیٹ بنک کے گورنر طارق باجوہ نے مالیاتی پالیسی کے اعلان کے دوران یہ اشارہ دیا ہے کہ ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی ۔
بنک نے رائج شرح سود میں پچیس پوائنٹ کا اضافہ کرکے اس کو سالانہ چھ فیصد کردیا اس سے قبل شرح سود 5.75فیصد تھی۔ اس کے بعد معاشی رد عمل کا ایک سلسلہ شروع ہوگا جس میں روپے کی قدر میں پانچ فیصد کمی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔
آج کے اخبارات میں فی بیرل تیل کی قیمت امریکا میں 66ڈالر سے زیادہ تھی اور آئندہ چند دنوں میں فی بیرل تیل کی قیمت 70ڈالر تک جائے گی ۔ اور اگلے دو ماہ میں اس میں مزید اضافے کا امکان ہے کہ روپے کی قدرمیں کمی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے سے افراط زر میں اضافہ ہوگا اور ملک بھرمیں مہنگائی مزید بڑھے گی۔
گزشتہ دنوں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 2.5ارب ڈالر کی کمی آئی اور یہ ذخائر اب 13.5ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ دوسری بات یہ ہے سکوک اور یورو بونڈ کی فروخت کے بعد کرنٹ اکاؤنٹ کی شرح میں کمی آئی ہے۔ ملک کے اندر درآمدات میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے ۔چنانچہ کرنٹ اکاؤنٹ پر دباؤ بڑھ گیا ہے حالانکہ پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے ۔
اس کی بنیادی وجہ گزشتہ دسمبر میں روپے کی قدر میں کمی ہے لیکن درآمدات کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں ۔ بڑے پیمانے پر صنعتی اور خصوصاً غذائی اجناس کی پیداوار میں اضافے نے ملکی معیشت کو زبردست سہارا دیا ۔ اسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی ترقی ہوئی اور آئندہ بھی زیادہ خوش آئند خبروں کی توقع ہے ۔
ادھر اوپیک ممالک کی کوشش ہے کہ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ ہو تاکہ وہ زیادہ دولت کمائیں ، ان میں سعودی عرب ‘ ایران اور روس سرفہرست ہیں۔ ایران کو توقع ہے کہ تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کے بعد وہ اپنے معاشی مشکلات کا حل تلاش کرلے گا ۔ اس طرح سعودی عرب بھی جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے ، وہ جنگ کے اخراجات تیل کی قیمتوں میں اضافے سے پورا کرنا چاہتا ہے ۔
دوسری طرف تیل درآمد کرنے والے ملکوں خصوصاً پاکستان ‘ بھارت اور دیگر ممالک کی معاشی اور مالیاتی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان میں معیشت کی صورت حال زیادہ مخدوش ہے۔ ملک کے اندر جاری سیاسی کشمکش نے معاملات کو زیادہ الجھا دیا ہے جس کی وجہ سے حکومت بھر پور اندازمیں معاشی معاملات اور مالیاتی مشکلات پر زیادہ توجہ دیتی نظر نہیں آتی۔
اس کی توجہ کا مرکز سیاست اور انتظامی امور ہیں جو ان کی قابو سے باہر نظر آتے ہیں ۔ البتہ آنے والے دنوں میں ملک میں مہنگائی اور افراط زر میں اضافے کا امکان ہے۔ اگر حالات بدستور ایسے ہی رہے اور ان میں کوئی بہتری نہیں آئی تو ضروری اشیاء اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ اور اگر تیل کی قیمتوں میں اضافے کا موجودہ رحجان جاری رہاتو ملک کو تیل کی درآمدات پر مزید وسائل خرچ کرناپڑے گا۔
دوسری جانب مہنگائی عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہے،ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ،ملک میں روزگار کے ذرائع کم ہوتے جارہے ہیں ۔ بیرونی سرمایہ کاری چند ایک مخصوص شعبوں میں ہورہی ہے ۔
حکومت افراط زر اور روپے کی قدرمیں گراوٹ روکنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ چھوٹے صوبوں کے مسائل زیادہ پریشانی کا سبب بن رہے ہیں کیونکہ یہاں عوامی فلاح و بہبود پر کم سے کم رقوم خرچ کی جارہی ہیں ۔پائیدار معاشی ترقی ایک خواب بن کر رہ گیا ہے ۔