|

وقتِ اشاعت :   January 30 – 2018

کوئٹہ:  بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس محمدنور مسکانزئی اور جسٹس جناب جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے ہیں کہ سیندک سے متعلق جس کو دلچسپی ہے سب کو بات کرنے دیاجائے تاکہ پتہ چلے کہ بلوچستان کے ساتھ لوگوں کی کتنی ہمدردیاں ہیں ۔

نیب رپورٹ پر فیصلہ نہیں دے سکتے بلکہ تمام متعلقین کو سننے کے بعد آئین ،قانون اور میرٹ کے تحت فیصلہ سنایاجائیگا،سیندک اور دیگر سے متعلق معاہدے اور دیگر کے حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم کی پیروی کیوں نہیں کی گئی ۔یہ ریمارکس انہوں نے ثناء بلوچ کی جانب سے سیندک معاہدے میں توسیع سے متعلق دائر آئینی درخواست کے موقع پر دیا ۔

گزشتہ روز ڈویژنل بینچ کے روبرو سیندک توسیعی معاہدے سے متعلق ثناء بلوچ کے دائر کردہ آئینی درخواست کی سماعت شروع ہوئی تو اس موقع پر درخواست گزار ثناء بلوچ ،سیندک میٹلز لمیٹڈ محمدرازق سنجرانی ،ڈپٹی اٹارنی جنرل امین الدین بازئی ،اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شہک بلوچ ،محمدنواز خان بلوچستان بار کونسل کے منیراحمدکاکڑ، راحب بلیدی ایڈووکیٹ سمیت دیگر متعلقہ حکام موجود تھے۔

سماعت شروع ہوئی تو کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ اور شاہ محمد جتوئی نے چائینزفرم ،ریاض ایڈووکیٹ نے سیندک میٹلز لمیٹڈ کی جانب سے وکالت نامے جمع کئے جبکہ بلوچستان بار کونسل کے راحب بلیدی ایڈووکیٹ اور منیراحمدکاکڑ ایڈووکیٹ نے عدالت سے کیس میں فریق بننے کی استدعا کی جس پر عدالت نے انہیں تحریری درخواست پیش کرنے سمیت ثناء بلوچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے بلوچستان با ر کونسل کو فریق بنانے پر تو کوئی اعتراض نہیں جس پرثناء بلوچ نے کہاکہ انہیں بار کونسل کے فریق بننے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ انہیں ویلکم کرتے ہیں ۔

جبکہ سردارحلیمی ایڈووکیٹ نے سیندک ملازمین کی جانب سے فریق بننے کیلئے درخواست گزاری اس موقع پر سیندک کے علاقہ معتبرین نے بھی کیس میں فریق بننے کیلئے امان اللہ بلوچ ایڈووکیٹ کے توسط سے درخواست دی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جناب جسٹس محمدنورمسکانزئی نے حکومتی حکام سے استفسار کیاکہ انہوں نے سیندک کے متعلق کس نوعیت کا معاہدہ کیا ہے جس پر انہیں جواب دیاگیاکہ توسیع کا ۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کس قانون کے تحت سیندک کے معاہدے میں توسیع کی گئی ہے حالانکہ بلوچستان ہائی کورٹ نے حکم دیاتھاکہ معاہدے میں توسیع سمیت دیگر معاملات نہیں ہونگے اس حکم کی پیروی کیوں نہیں کی گئی۔

ثناء بلوچ نے بتایاکہ گزشتہ روز سیندک پروجیکٹ کے پانچ ملازمین کو چھٹی دیدی گئی ہے اور انہیں کہاگیاہے کہ وہ کیس میں فریق بننے کیلئے جائیں مجھے ان کے نام تک پتہ ہے اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ رہنے دے جس کو بھی اس کیس میں دلچسپی ہے اس سے بات کرنے دو تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ بلوچستان کے ساتھ لوگوں کی کتنی ہمدردیاں ہیں ۔

سماعت کے دوران سردار حلیمی ایڈووکیٹ نے کہاکہ 2001ء میں سیندک ملازمین کے کنٹریکٹ ختم ہونے پر کمپنی نے 11سو ملازمین کو نکال دیا تھا جبکہ 17سال بعد بھی ان کے بقایاجات ہیں جس پر چیف جسٹس نے ان کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ تو کمپنی کااختیار ہے وہ جب چاہیے ملازمین کو فارغ کرے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ اس سے مین ایشو ڈائی ورٹ ہوگا ۔

بلوچستان بار کونسل کے منیراحمدکاکڑ نے کہاکہ ملازمین کی جانب سے اپنے حقوق اور دیگر سے متعلق الگ آئینی درخواست دائر کردینی چاہیے ،اس مو قع پر ریاض ایڈووکیٹ نے عدالت کوبتایاکہ درخواست گزار ثناء بلوچ سماعت کے بعد میڈیا پر مختلف قسم کے بیانات دیتے ہیں سیندک سے متعلق انہیں بیان بازی اورانٹرویوزسے روکاجائے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ اگر ثناء بلوچ کوئی ایسا بیان اور انٹرویو دیتاہے جس سے ریاست اور ملک پر حرف آئے تو اس کے خلاف غداری اور دیگر مقدمات دائر کرے ۔

ثناء بلوچ نے عدالت کوبتایاکہ معاہدے میں گورنمنٹ آف بلوچستان کے اونر شپ سمیت دیگر کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس پر عدالت نے ان سب کو جواب دینے دو جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ثناء بلوچ سے استفسار کیاکہ ایسا کب سے ہورہاہے جس پر ثناء بلوچ نے کہاکہ 17سال سے ۔ سماعت کے دوران سینئر صحافی اور اینکر پرسن اسد کھرل نے عدالت کو بتایاکہ ان کے پاس نیب کی ایک رپورٹ ہے جس میں سیندک میں اربوں روپے کی چوری اور خردبرد کاذکر ہے ۔

وہ ایک شہری کی حیثیت سے لاہور سے آئے ہیں اور کورٹ کو مذکورہ رپورٹ سے آگاہ کرناچاہتے ہیں افسوسناک امر یہ ہے کہ نیب کی جانب سے 2014ء سے اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ کارروائی عمل میں ہی نہیں لائی گئی ۔

انہوں نے کہاکہ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ سیندک میٹلز لمیٹڈ کے ایم ڈی ای محمدرازق سنجرانی نہ صرف میرٹ کے بر خلاف بھرتی ہوئے ہیں بلکہ انہیں سال2008ء میں کنٹریکٹ پر تعینات کیاگیاتھا ان پر کرپشن کے بھی الزامات ہیں ۔

جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ وہ نیب رپورٹ پر نہیں بلکہ میرٹ ،آئین اور قانون کے تحت تمام متعلقین کو سننے کے بعد انصاف پر مبنی فیصلہ سنائینگے ،بعدازاں کیس کی سماعت کو 5مارچ تک کیلئے ملتوی کردیاگیا۔