اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے لیبیا کے ساحل کے قریب تارکین وطن کی ایک کشتی کے حادثے میں 90 افراد کے ڈوبنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے تین افراد کا کہنا ہے کہ ڈوبنے والے زیادہ تر افراد پاکستانی تھے۔
کئی برسوں سے تارکین وطن لیبیا کو سمندر کے راستے یورپ پہنچنے کے لیے اہم گزرگاہ کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔گزشتہ برس یورپی یونین نے لیبیا کے ساتھ ایک متنازع معاہدہ کیا تھا جس کے تحت لیبیا کے ساحلی محافظوں کی مدد کی گئی تھی تاکہ وہ تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو اٹلی لے جانے والی کشتیوں کو روک سکیں۔امدادی اداروں اور اقوام متحدہ نے یورپی حکومتوں کے اس اقدام کوغیر انسانی قرار دیا تھا۔
ہجرت سے متعلق بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس سے قبل اِس قسم کے حادثات میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق صحارا کے زیریں افریقی ممالک سے ہوتا تھا لیکن اس مرتبہ کشتی کے زیادہ سواروں کا تعلق پاکستان سے تھا۔ آئی او ایم کے مطابق اب غیر قانونی طور پر یورپ آنے والوں میں پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔
اگرچہ گزشتہ برس غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والوں میں پاکستانیوں کا نمبر 13واں تھالیکن اس سال پاکستانی تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہیں۔تنظیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر پاکستانی اٹلی پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔آئی او ایم کے مطابق سمندر کے راستے یورپ میں رواں برس چھ ہزار چھ سو چوبیس لوگ پہنچے، گزشتہ برس یہ تعداد پانچ ہزار نو سو تراسی تھی۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق 246 تارکین وطن ایسی کوششوں کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔ 2017 میں لبیا سے اٹلی پہنچنے والے پاکستانیوں کی تعداد 3138 تھی جبکہ وہاں لیبیا سے پہنچنے والے کل تارکین وطن کی تعداد ایک لاکھ 19ہزار 369 تھی۔تاہم رواں برس جنوری میں وہاں 240 پاکستانی پہنچے جس کے بعد پاکستان تیسرے نمبر پر پہنچ گیا اگر موازنہ کیا جائے تو سمندر ی راستے جنوری 2017 میں فقط نو پاکستانی سمندر کے راستے اٹلی پہنچے تھے جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق ساحل پر ملنے والی دس لاشوں میں سے آٹھ پاکستانی ہیں۔
بیرون ملک جانے والے اکثر موت کو گلے لگاکر غیرقانونی طریقہ اپناتے ہوئے سفر کو نکلتے ہیں بیشتر اموات سمندری راستے یا پھر کنٹینر بند افراد کے ہوتے ہیں، یہ ایک المیہ ہے کہ ان میں بیشتر نوجوان ہیں جو پُرکشش زندگی کا خواب دیکھ کر اس منزل کی جانب راغب ہوتے ہیں اور انہیں یہ سنہری خواب چند پیسے کمانے والے ایجنٹ دکھاتے ہیں مگر سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس جانب خاص توجہ نہیں دی جارہی کہ ملک کے اندر ایسے معاشی حالات پیدا کئے جائیں تاکہ نوجوانوں کو اپنے ہی ملک میں بہترین روزگار کی فراہمی آسان ہوسکے ۔
بدقسمتی سے ان نوجوانوں میں پڑھے لکھے بھی شامل ہیں جو مایوسی کا شکار ہوکر بیرون ملک غیر قانونی طریقے سے جانے کی کوشش کرتے ہیں اس سے نہ صرف مالی نقصانات ہوتے ہیں بلکہ قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔
اس معاملے پر ہر طبقے کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ موت کے اس کھیل سے نوجوانوں کو کس طرح بچایاجاسکے ۔اس میں شعوری عنصر پیدا کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے اور ریاست کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کیلئے روزگار کے بہترین مواقع پیدا کرے تاکہ اس طرح کے المناک واقعات میں نہ صرف کمی آئے بلکہ نوجوان ملکی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔