ڈیلی’’ بلوچستان ایکسپریس‘‘ اور’’ روزنامہ آزادی‘‘ کے مدیرلالہ صدیق بلوچ قلیل علالت کے بعد گزشتہ شب کراچی کے نجی ہسپتال میں علاج کے دوران انتقال کرگئے ۔صدیق بلوچ کی رحلت پر سیاسی،صحافتی،سماجی ،عوامی حلقے سب ہی افسردہ ہیں۔
صدیق بلوچ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ اگر لیاجائے تو لفظ ختم ہوجائینگے مگر اس عظیم انسان کی زندگی کے کارناموں کی داستان ختم نہیں ہوگی۔
صدیق بلوچ کی صحافت اورسیاست کا سفر انتہائی کٹھن رہا۔ صدیق بلوچ نے ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی اور پھر کراچی یونیورسٹی سے اکنامکس اور انگریزی میں ڈبل ایم اے کیا۔ صحافت کا شوق طالب علمی کے زمانے سے ہی رہا، اسی دوران ایک انگریزی اخبار سے وابستہ ہوگئے اور ماہانہ تین سو روپے تنخواہ وصول کرتے رہے۔
صدیق بلوچ کی قابلیت دیکھ کر دبئی سے انہیں ملازمت کی پیشکش آئی مگرانہوں نے انکار کردیا کیونکہ ان کا مقصد محض پیسہ کمانا نہیں تھا بلکہ وہ ایک عظیم مقصد کیلئے سرگرداں تھے۔ 70ء کی دہائی میں بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت جب بنی تو صدیق بلوچ بطور پی آراو گورنربلوچستان اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔
حکومت کے خاتمے اور گورنر راج لگنے کے بعد صدیق بلوچ کو پس زنداں ڈال دیا گیا اور وہ تقریباً پانچ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید و بند کی زندگی گزارتے رہے ۔
اس دوران بعض سیاسی قائدین جلاوطنی اختیار کی یا بیرون ملک چلے گئے مگر صدیق بلوچ نے جلاوطنی یا بیرون ملک کا راستہ نہیں اپنایا بلکہ ثابت قدمی کے ساتھ حالات کامقابلہ کرتے ہوئے رہے اورپھر سے صحافتی شعبے سے منسلک ہوگئے لیکن دوبارہ سیاست کارخ نہیں کیا۔ لیاری جیسے پسماندہ علاقے میں پیدا ہونے والے اس عظیم فرزند نے اپنی محنت ولگن سے صحافتی شعبے میں اپنا لوہا منوایا ۔
صدیق بلوچ ایک نڈر صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی پروفیشنل انسان تھے۔ اخبارات کے مالک ہونے کے باوجود انہوں نے ہمیشہ ایک صحافی کی طرح اپنے ادارے میں کام کیاجس کی مثال بلوچستان کے صحافتی حلقوں میں دی جاتی ہے۔
صدیق بلوچ نے بلوچستان کے تقریباًہر مسئلے کو اپنے قلم کے ذریعے اجاگر کیا اور کبھی یہ پرواہ نہیں کی کہ اس طرح ان کی ذات اور اس کے ادارے کے لیے کتنے مسائل پیدا ہوں گے ۔
بلوچستان کے بعض حکومتی حلقے صدیق بلوچ کے حق وسچ لکھنے سے ہمیشہ نالاں رہے یہاں تک کہ اس کے اپنے قریبی دوست جو اقتدار میں تھے انہی کے دورمیں صدیق بلوچ کے اخبارات کے اشتہارات کی بندش کا معاملہ بھی سامنے آیا مگر اس کے باوجود انہوں نے بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرنے اور حق و سچ لکھنے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
صدیق بلوچ نے بلوچستان کے ہر مسئلے کو بہتر سے بہتر انداز میں اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حل کے لیے بھی ہمیشہ حکومت وقت کو تجاویز دیتے رہے۔ ان کی ترجیحات میں ’’خوشحال بلوچستان‘‘ سرفہرست رہا مگر شومئی قسمت ان کی لکھی گئی تحریروں کوہمیشہ تنقیدی تناظر میں لیا گیا۔
لالہ صدیق بلوچ نے انگریزی میں دو کتابیں بھی لکھیں جو بلوچستان کے متعلق ہیں جن کے مطالعہ سے بلوچستان سے متعلق بہت ساری معلومات حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ بلوچستان سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں مدد بھی مل سکتی ہے۔
آج لالہ صدیق بلوچ ہمارے درمیان نہیں رہے مگر ان کی عملی جدوجہد ،بلوچستان کے ساتھ دلی لگاؤ تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ لالہ صدیق بلوچ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان سے متعلق یہ چند سطر عقیدتاً قلم بند کئے گئے، حقیقتاً ان کی جدوجہد اور زندگی کی دیگر پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے ایک دفتر چائیے۔
انشاء اللہ آئندہ بھی انہی صفحات میں ان کی عظیم سفر زیست کے بارے میں معلومات اپنے قارئین کی نظرکرینگے۔ اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ آج ہمارے درمیان محض ایک شخص نہیں بلکہ اپنے اندر موجود ایک ادارہ نہیں رہا۔ اللہ ان کی سفر آخرت کو آسان کرے کیونکہ وہ اللہ کی مخلوق میں آسانیاں بانٹتے ہوئے چلے گئے۔ آمین