لالہ صدیق بلوچ 1940ء میں کراچی کے علاقے لیاری میں پیدا ہوئے، زمانہ طالب علمی سے لالہ صدیق بلوچ کو صحافت سے بے حدلگاؤتھا حالانکہ اس بات سے بہت ہی کم لوگ واقفیت رکھتے ہیں کہ لالہ صدیق بلوچ ایک بہترین فٹبالر بھی تھے۔
لالہ صدیق بلوچ نے فٹبال کے شعبہ کو محض ایک جسمانی ورزش کی حد تک رکھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہی انہوں نے فٹبال کھیلنے سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے صحافت سے باقاعدہ جڑ گئے اور ایک انگریزی اخبار سے اپنی صحافتی کیریئر کا آغاز محض 3 سو روپے سے کیا۔
لالہ صدیق بلوچ بی ایس او کے بانیان میں شمار ہوتے تھے جب بلوچ وانندہ گل تنظیم بی ایس او میں تبدیل ہوجاتا ہے تو لالہ صدیق بلوچ اس طلباء تنظیم میں انتہائی فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ دور سیاست کیلئے انتہائی کٹھن تھا مگر سماجی تبدیلی کی سوچ کے ساتھ صدیق بلوچ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر ہر طرح کی حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
لالہ صدیق بلوچ کی قابلیت پر ہمیشہ ان کے دوستوں کو فخر رہا۔ میرغوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ خان مینگل اور نواب خیر بخش مری کے ساتھ ان کی گہری قرابت رہی۔
ایوب خان کے دور میں جب لیاری کی آبادی کو منتقل کرنے کافیصلہ کیاگیا تو ایک بڑی تحریک شروع کی گئی جس میں لالہ صدیق بلوچ، لالہ لال بخش رندسمیت کراچی کے بزرگ و نوجوانوں نے اس منصوبہ کو ناکام بنانے کیلئے بھرپور مہم چلائی اور اسی دوران یہ فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان کی قوم پرست قیادت اب تمام صورتحال کو اپنے ہاتھ میں لیکر میدان عمل میں کھود پڑیں اور یہی ہوا بلوچستان کی قوم پرست قیادت میرغوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ خان مینگل، نواب خیربخش مری اور نواب اکبرخان بگٹی اس تحریک کا حصہ بنے ۔
اس دوران لیاری میں دو بڑے جلسے کنکری گراؤنڈ اور مولوی عثمان پارک میں منعقد کئے گئے جس کے بعد ایوب خان پر دباؤبڑھ گیا اور انہوں نے اپنافیصلہ واپس لے لیا۔ لالہ صدیق بلوچ جیسی شخصیات نے کراچی اور بلوچستان کے خونی وفطری رشتے کو ہمیشہ قائم ودائم رکھنے میں بھر پور کردار ادا کیااور آج بھی یہ رشتہ اسی طرح برقرار ہے۔
لالہ صدیق بلوچ نیپ کے دور میں گورنر بلوچستان میرغوث بخش بزنجو کے پریس سیکریٹری بنے ۔نیپ کی حکومت کے خاتمے کے بعد حیدرآباد سازش کیس میں لالہ صدیق نے5 سال تک قیدوبند کی صعوبتیں کاٹیں۔ یہ ان کی ذات کیلئے نہیں بلکہ اجتماعیت کی جنگ تھی اور اس جدوجہد کا مقصد ون یونٹ کا خاتمہ، بلوچستان کو صوبہ کا درجہ دلوانا، یہاں کے عوام کی محرومیوں کا خاتمہ، بلوچستان کے وسائل پر یہاں کے لوگوں کا حق تسلیم کروانا شامل تھا۔
لالہ صدیق بلوچ جب رہا ہوجاتے ہیں تو وہ ایک بار پھر صحافت کارخ کرتے ہیں مگر نظریہ انقلاب نہیں بدلا اور وہ اپنے قلم کے ذریعے عوام میں شعوروآگاہی کے ساتھ حکمرانوں کی کرپشن ،ظلم وجبر کے خلاف لکھتے رہے ۔
لالہ صدیق بلوچ نے بلوچستان آکر ڈیلی بلوچستان ایکسپریس اخبار کی بنیاد رکھی نوجوانوں کو اس ادارہ میں کام کرنے کے مواقع سمیت انہیں سکھانے کا عمل جاری رکھا۔اس طویل محنت وجدوجہد کے بعد لالہ صدیق بلوچ نے دوسرے اخبار روزنامہ آزادی کا اجراء کیا جس میں آج بھی سینکڑوں ورکرز کام کر رہے ہیں ۔
لالہ صدیق بلوچ کی پوری زندگی پر روشنی ڈالی جائے تو وہاں انفرادیت سے اجتماعیت کے اس سفر کے دوران لالہ صدیق بلوچ کے حصہ میں دولت، پیسہ نہیں بلکہ اعلیٰ مقام ورتبہ آیا ۔ لالہ صدیق بلوچ کی مثال آج بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد دیتی ہے کیونکہ ان کے شاگردوں میں نوجوانوں کی بڑی کھیپ شامل ہے جو آج ملک کے بڑے اداروں میں اہم عہدوں پر فائز ہیں جبکہ بعض بیرون ملک میں مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں۔
سیاست،صحافت،ادب سمیت دیگر شعبہ کے لوگ آج بھی لالہ صدیق بلوچ کو اپنا محسن مانتے ہیں اس کی وجہ لالہ صدیق بلوچ کی اجتماعی سوچ ہے۔ لالہ صدیق بلوچ نے زندگی کے سفر کا آغاز انفرادی طور پر کیا اور اسے اجتماعیت میں بدل دیا۔ گو کہ وہ آج ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوگئے ہیں مگر ان کی دی ہوئی تعلیم وتربیت اورسوچ آج بھی ہمارے ساتھ ہے۔