انسان اپنے فطرت و طبیعت میں امن و شرافت کا بنیادی خاصہ رکھتا ہے فطری ضروریات میں معاشی و معاشرتی ضروریات و سکون اولین اہمیت رکھتے ہیں۔
ثقافت و کلچر اور اقدار و خوشحالی ثانوی نہیں بلکہ بغیر مقابلے و کشمکش کے اہم تر ہیں۔ اس سے زیادہ بنیادی درجہ عقیدہ، ایمان اور زندگی کے بنیادی تصورات ہیں۔ یہ سیڑھیاں درجہ بدرجہ، انسانی معاشروں میں اپنے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے متعین ہیں۔
انسانی سوسائٹی میں جب جب یہ تدریج اور توازن بگڑ گیا ہے۔ عدم تحفظ، بدامنی، معاشی، ناانصافی اور بقاء کا سوال درپیش رہا ہے۔
آج ہمارے معاشرتی اصولوں اور ریاست کے خدوخال و بنیادی پالیسیوں میں فطری و ازلی انسانی ترتیب بگڑ چکا ہے۔
پاکستان کو ہندوستان اور افغانستان سے آزاد ہوئے 70 سال کا طویل عرصہ ہوگیا۔ لمحہ موجود میں تیز رفتار ترقی و ٹیکنالوجی کے باعث، ایک عشرہ یعنی دس بیس برس بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن ہمیں سات عشرے ہوگئے
ابھی تک بنیادی سمت کا تعین نہ ہونے کے باعث معاشرتی فلاح و بہبود اور ثقافتی و علمی ترقی سے کوسوں دور ہیں۔ اگر ہم قرارداد مقاصد جیسے بنیادی دستاویز اور آئین کو مقدس و مقدم سمجھتے ہیں تو اس پر عدم یکسوئی اور عملدرآمد کا فریم ورک اختیار نہ کرتے ہوئے بے منزل اور بے سمت ہوچکے ہیں۔
اس مختصر پس منظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ پاکستانی معاشرے کے حالیہ اُتھل پُتل کا بغور تجزیہ کریں تو ہم سماجی ناانصافی کے لحاظ سے تباہی و بربادی کے آخری دھانے پر ہیں۔ بھوک و غربت کے اندھیرے میں جہالت اور پسماندگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
ٹیکنالوجی سے کوسوں دور اور تھوڑا بہت استعمال ہے تو وہ منفی تناظر میں اپنے بچوں کے جنسی درندگی کے در پے ہیں یا ثقافتی اقدار کو بہتر و بالا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ کراچی میں سیاسی لاڈلے راؤ انوار کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہونے والے نقیب اللہ محسود کی المناک شہادت نے ہمارے قومی وسماجی اصولوں کا بھرم کھول دیا۔
کیا پچھلے پندرہ بیس دنوں سے یہ سوال، سورج کے نرم و گرم کرنوں کی طرح، بیس کروڑ مظلوم انسانوں کے سامنے آکھڑا نہیں ہوا کہ انسانوں کی عزت و بقاء اور تحفظ و آبرو مندی، ہمارے سیاسی و عدالتی نظام کے اندر کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ راؤ انوار اب ایک بدنام کردار اور نقیب اللہ محسود، مظلومیت و انصاف کا ستارہ یا فریاد رساں بن چکا ہے۔
لیکن کیا ہمارے چاروں طرف سیاسی نظام کی بدمعاشی، عدلیہ کے مکروہ کردار اور میڈیا کے یکطرفہ مفاد پرستانہ عزائم نے پورے معاشرے کو عذاب میں مبتلا نہیں کر رکھا ہے۔
اسلام آباد کا پختون جرگہ، روایات کی پاسداری اور کلچر و ادب کے حوالے سے مہذب اور پُر امن ترین دھرنا تھا اسے قبائلی علاقوں کے مشران نے نوجوانون کی رہبری اور قیادت میں منظم کیا جو روایتی سیاست کے برخلاف ایک نئی و توانا آواز ثابت ہوئی۔
میں نے پختون جرگے کے 9 ویں روز یعنی 9 فروری 2018 کو اس باوقار اور عزت مندانہ جرگے کے نوجوان کنوینئر منظور پشتون کا BBC پشتو سروس پر انٹرویو سنا۔ انتہائی حوصلہ مندی اور پرسکون انداز میں اس نے جرگے و احتجاج / دھرنے کے متعین مقاصد بتائے اور انتہائی سلیقے سے اپنا کیس اقوام عالم کے سامنے رکھا۔
یعنی بقول اقبال
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی
منظور پشتون کہہ رہے تھے کہ
1۔ نقیب اللہ محسود کے قاتل کو گرفتار کیا جائے۔
2۔ وزیرستان، فاٹا اور پورے ملک میں ہمیں تحفظ دیا جائے اور
3۔ قبائلی علاقوں میں نقل مکانی کے اسباب اور اس کے اثرات بد، نقصانات و تاوان ادا کئے جائیں اور
4۔ پاکستان کے کمزور تین سیاسی و عدالتی نظام کے تحت قبائل کے عوام کو حقوق دئیے جائیں۔
نامہ نگار کے سوال کئے بغیر سیدھے سادھے منظور خان نے کہا کہ یہ صرف الفاظ نہیں بلکہ ان الفاظ و مطالبات کے ساتھ قبائل و پختونوں کی زندگی و آبرو اور بقاء و تحفظ وابستہ ہیں۔ ریاست کے سامنے یہ سوال موجود ہے کہ آخر بے گناہ انسانوں کا المناک قتل کب تک جاری رہے گا۔
میڈیا کا بائیکاٹ بھی ایک المناک سوال ہے کہ کیا جب تک احتجاج باوقار اور منظم رہے گا اور اس میں عوام کو تکالیف و گالیاں نہ ہوں اُس وقت تک چینل کے کیمرے اور کالم نگاروں کے کالم کسی مظلوم کے حق میں آواز نہیں اُٹھاتے۔
پختون جرگے و دھرنے، قوم پرستی کے بجائے مناسب فریم ورک میں رہ کر باوقار انداز میں عزت مندانہ راستہ اختیار کرکے پختون کلچر میں خوبصورت اضافہ کیا ہے اور قوم پرست لیڈرز کے لئے ایک نئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
پشتونوں کے درمیان افغانستان کا طویل قبضہ اور نظریاتی لڑائی ایک ایسے نہ پھلانگنے والی دیوار کی طرح موجود ہے جس پر مکالمہ و جرگہ کے لئے وسعت قلبی اور مستقبل بینی کی آرزو و خواہش پیدا کرنا چاہئے۔
وزیرستان اور قبائلی عوام، اس نظریاتی لڑائی میں پسماندہ رہے اور ریاست کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے بھی ڈیورنڈ لائن کے دیرینہ و تنازعہ سرحدی تنازعے کے باعث اذیت سے دو چار رہے کیا پاکستان کے چاروں اکائی بشمول کشمیر، گلگت یہ جواب دے سکتے ہیں کہ لاکھوں قبائل کو اپنے ملک کے اندر ہجرت اور در پدری پر کیوں مجبور کیا گیا؟
نواز شریف، عمران خان، جناب زرداری اور چیف جسٹس آپس میں گتھم گتا ہیں انہیں کراچی، وزیرستان اور کوئٹہ کی فکر نہیں اس لئے مجبوراً پشتون لیڈرز جناب سراج الحق، محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی خان کو دوسرے دانش مندوں علماء کرام و مشران اور نوجوانوں و سول سوسائٹی کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات و مکالمے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ورنہ کہیں دیر نہ ہوجائے اور مہاجر نوجوانوں کی طرح بغاوت نہ ہو یا بلوچ نوجوانوں کی طرح آزادی پسندی کی ہوا نہ چل پڑے یا مذہبی عقیدت و کردار رکھنے والے پاک باز نوجوان انتہا پسندی کے ہاتھوں نہ چڑھ جائیں۔
آج وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں۔ بیدار ہوں اور ظلم و تعصب سے بغاوت کرکے اپنے آپ کو تبدیلی و انقلاب کے لئے تیار کریں۔
برقی پتہ: unreath17@gmail.com