|

وقتِ اشاعت :   March 18 – 2018

بلوچستان کے صوبائی بجٹ میں صحت کے لیے ایک بڑی رقم مختص کی جاتی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ آج بھی عوام صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں یہاں تک کہ زچگی کے دوران خواتین کی ایک بڑی تعداد موت کی آغوش میں چلی جاتی ہے کیونکہ ہسپتالوں میں سہولیات نہیں۔ 

اندرون بلوچستان سینکڑوں ایسے کیسز ہوتے ہیں جن میں خواتین دوران زچگی جاں بحق ہوتی ہیں لیکن ایسے کیسز رپورٹ تک نہیں ہوتے۔ بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے عوام جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں اورموت کی منہ میں چلی جاتی ہیں لیکن نہ ان کی کوئی تحقیقات نہیں ہوتی ۔ ڈاکٹروں کا حالیہ ہڑتال اور اوپی ڈیز کی بندش سراسر زیادتی ہے ۔

دوسری طرف اسمبلی میں ان کے مسائل حل کرنے کیلئے بحث کی جاتی ہے بجائے یہ کہ دیکھاجائے کہ سرکاری ہسپتالوں میں کتنے ڈاکٹرزاپنی ڈیوٹی پر حاضر رہتے ہیں اوراحسن طریقے سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔

المیہ یہ تو ہے کہ ڈاکٹروں کی اکثریت ہسپتالوں میں کم اور اپنے ذاتی کلینکس پر زیادہ وقت گزارتے ہیں۔سرکاری ڈیوٹی میں ان کا دل نہیں لگتا لیکن مراعات سارے وصول کرتے ہیں۔ اندرون بلوچستان جتنے ہیڈکوارٹرز ہسپتال ہیں ان کی حالت زار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے وہاں کوئی سہولت موجود نہیں۔جبکہ ڈاکٹر حضرات اس وقت صرف اپنے ذاتی مراعات کیلئے سراپا احتجاج ہیں جو کسی صورت جائز نہیں۔ 

پہلے ان سے جواب طلب کیا جائے کہ ہسپتال کے کتنے شعبے مکمل فعال ہیں جو اپنا کام مکمل طریقے سے کررہے ہیں کیونکہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک معمولی ٹیسٹ کیلئے عوام کو ہسپتالوں کے باہر پرائیویٹ لیبارٹریز میں جانا پڑتا ہے جن کی کوئٹہ شہر میں بھر مار ہے۔

کیا یہ ڈاکٹروں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ عوامی سہولیات اور مشینری کیلئے احتجاج کریں تاکہ انہیں حقیقت میں مسیحا سمجھا جاسکے۔ بدقسمتی سے ہمارے دو شعبے تعلیم اور صحت جن کے لیے موجودہ حکومت نے بجٹ کے دوران اربوں روپے مختص کئے مگر ان میں کوئی بہتری نہیں آئی اور انہی شعبوں سے جڑے اساتذہ اورڈاکٹرحضرات اپنی تنخواہوں و مراعات کیلئے ہر وقت سراپااحتجاج دکھائی دیتے ہیں جو کہ قطعاََ غلط ہے۔ 

سروے کے مطا بق آج بھی بلوچستان کے 80 فیصد لوگ علاج کی غرض سے دیگر شہروں کا رخ کرتے ہیں جہاں انہیں اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں معمولی بیماری تک کیلئے ادویات دستیاب نہیں ،اس کا جواب دہ کون ہے کہ یہ سرکاری ادویات کہاں جاتی ہیں، مشینری وآلات خراب ہونے کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟ 

کیا یہ ڈاکٹرز کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اعلیٰ حکام تک عوام کے علاج ومعالجے کیلئے درپیش مسائل کو پیش کریں لیکن یہ اس کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے ۔اوپی ڈیز کی بندش کے بعد بھی حکومتی ایوانوں میں یہ بات زیر غور لائی جاتی ہے کہ ڈاکٹرز کے مطالبات منظور کئے جائیں ۔

پھر تو ضروری ہے کہ اس اہم نوعیت کے مسئلے پر بھی اسمبلی فلور پر آواز بلندکی جائے کہ ہسپتالوں کی حالت زار میں بہتری کیوں نہیں آرہی اور ڈاکٹروں پر بھی نظر رکھی جائے کہ اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں یا نہیں ،صرف احتجاج ان کا حق نہیں اپنے فرض کی ایمانداری سے ادائیگی بھی ڈاکٹروں پر لازم ہے ۔

ڈاکٹروں کے جائز مطالبات مانناحکومت کی ذمہ داری ہے مگر ڈاکٹرحضرات بھی اپنے فرائض سے غفلت نہ برتیں، بلوچستان کے عوام پہلے سے ہی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں مزید ان کو اس طرح اذیت میں مبتلا کرنا ایک غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل ہے محض اپنی مراعات کے لیے احتجاج کرنا خود غرضی کے ذمرے میں آتاہے۔

ڈاکٹرز عوام کیلئے مسیحا کا درجہ رکھتے ہیں انہیں قاتل بننے کے عمل سے گریز کرنا چائیے کیونکہ ان کے احتجاج کے دوران علاج نہ ہونے سے کسی مریض کی جان بھی جاسکتی ہے۔ او پی ڈیز کی بندش کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے آنے والے لوگ کئی دن ہسپتال کے باہر ڈھیرے ڈال کر انتظار کرتے ہیں اس طرح کے عمل کو کسی صورت جائز نہیں سمجھا جاسکتا۔ 

امید ہے کہ ڈاکٹرحضرات اپنے مطالبات کے ساتھ ساتھ عوام کی مشکلات کو بھی مد نظر رکھیں گے اور اس طرح کے احتجاج سے گریز کرینگے جس سے ان کے پیشے کی ساکھ متاثر ہو۔آپ بے شک احتجاج کریں لیکن علاج بھی کریں یہی آپ کے پیشے کا فرض ہے۔