|

وقتِ اشاعت :   March 19 – 2018

بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد نئی حکومت تشکیل دی گئی، گوکہ نئی حکومت میں شامل ارکان کا تعلق اپوزیشن سے نہیں بلکہ سابقہ ن لیگ ہی سے تھا جنہوں نے حکومت پر عدم اعتماد کااظہار کیا۔

منحرف ارکان کا گلہ تھا کہ انہیں فنڈز سمیت دیگر معاملات میں نظر انداز کیاگیا یہاں تک کہ مری معاہدے کے معاملے میں بھی انہیں اعتماد میں نہیں لیاگیا اور ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کی نامزدگی عمل میں لائی گئی۔ یوں پارٹی کی مرکزی قیادت کی مسلط کی گئی فیصلے کو مجبوری کے تحت تسلیم کیاگیا۔ 

عدم اعتماد کی تحریک میں سب نے اپنا حصہ ڈالا جس میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں شامل تھیں ، اس تحریک کے پیچھے پیپلزپارٹی کی برائے راست مداخلت کی بھی بات سامنے آئی مگر اس سے موجودہ حکومت انکاری رہی ۔البتہ ایک اہم وزیر نے اس مداخلت کے ردعمل پر کہاکہ پیپلزپارٹی واحد جماعت ہے جس نے اپنی جماعت پر سرمایہ کاری کی جو کسی اورجماعت نے بلوچستان میں اپنی جماعت پر نہیں کی اور اپنی جماعت کے صوبائی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی بلکہ انہیں فیصلوں پرآزاد رکھا۔

اس تمام صورتحال کے باوجود اہم حلقوں میں یہ بات زور پکڑتی رہی کہ بلوچستان میں حکومتی تبدیلی میں کسی حد تک پیپلزپارٹی کا برائے راست کردار رہا ہے۔ حال ہی میں سینیٹ انتخابات کے نتائج نے مزید سوالات اٹھادیئے جب پیپلزپارٹی نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے آزاد سینیٹر کی بطور چیئرمین حمایت کی اور ان کے نام کا اعلان بھی بلاول بھٹو زرداری نے کیا۔

پی ٹی آئی نے اپنے ووٹ وزیراعلیٰ بلوچستان کے کہنے پر اورنیزاس بنیاد پرسنجرانی کو دئیے کہ وہ ن لیگ کا راستہ روکنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ایک بارپھر سینیٹ کی اپوزیشن لیڈر کے چناؤ پر بلوچستان حکومتی حمایت یافتہ آزاد سینیٹرز نے پیپلزپارٹی کی نامزد کردہ شیری رحمن کے حق میں ووٹ دینے کافیصلہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اپنا موقف دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ہم پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کررہے ۔

مگر اس حوالے سے سوالات اٹھتے جارہے ہیں کیونکہ سیاست میں غیر فطری اتحاد ممکن نہیں۔ شنید میں یہ بھی آرہا ہے کہ عام انتخابات میں بلوچستان کے منحرف ن لیگی ارکان سمیت آزاد سینیٹرز پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرینگے کیونکہ سیاست میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوتی ۔ 

ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق میں بننے والی حکومتیں اب اس بات پر خاص توجہ دیں کہ ان کی غلط پالیسیوں کے باعث ہمیشہ بلوچستان کے سیاسی رہنماء علم بغاوت کرتے رہے ہیں مگر شومئی قسمت 72ء کے الیکشن کے بعد بھی ان کا رویہ نہیں بدلا، ہمیشہ بلوچستان کو اپنے فیصلوں پراختیار نہیں دے گیا یہاں تک کہ بلوچستان کے تمام معاملات اسلام آباد میں طے پاتے ہیں۔ 

یہاں ہمیشہ کٹھ پتلی نمائندے رکھے گئے ،اگر کبھی وفاقی فیصلوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کی گئی تو انہیں دیوار سے لگادیا گیا۔ مگر اس بار چےئر مین سینٹ کے انتخاب سے ایک تبدیلی کا احساس اجاگر ہورہا ہے ،یوں لگتا ہے کہ بلوچستان ملکی سیاست میں اہم کردارادا کرنے جارہاہے ۔ 

نئے چئیرمین سینٹ سے امید کی جارہی ہے کہ وہ بلوچستان کے مفادات کو اولین ترجیح دیں گے اوران کے ساتھ بلوچستان کے دیگر سیاسی نمائندے اپنے حقوق کے لیے بھر پور آواز بلند کرینگے اور بلوچستان کے عوام کی دل کی آواز بنیں گے ۔