گزشتہ روز دو اہم بیانات سامنے آئے جن کا برائے راست تعلق پاک افغان تعلقات اور خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے ہے۔امریکی نائب صدر مائیک پینس نے گزشتہ روز وزیراعظم شاہدخاقان عباسی سے ملاقات کے دوران امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے دیئے گئے ۔
پیغام میں کہاکہ پاکستان اپنے ملک کے اندر موجود سرگرم طالبان، حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف اقدامات اٹھائے ، اطلاعات کے مطابق دونوں رہنماؤں کی ملاقات امریکی نائب صدر کے گھر پر پاکستان کی درخواست پر ہوئی۔ بہرحال امریکہ کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ تاثر دیاجارہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کررہی اور حقانی نیٹ ورک، طالبان ودیگر شدت پسند گروہوں کا نیٹ ورک پاکستان میں موجود ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی الزامات ان کی اپنی اختراع ہیں کیونکہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے تو وہ کیسے دہشت گردگروہوں کی پشت پناہی کرسکتا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے اور تاہنوز یہ سلسلہ جاری ہے جبکہ پاک افواج کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن جاری ہے ۔
پاکستان نے اس دوران دو بڑے آپریشنزلانچ کیے پہلے آپریشن ضرب عضب اور اس کے بعد آپریشن ردالفساد جاری ہے جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کے متعدد ٹھکانے تباہ کئے گئے اوران کے اہم کمانڈرز سمیت متعدد شدت پسند ہلاک بھی کئے گئے۔
پاکستان پہلے بھی دنیا کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کرچکا ہے کہ یہ جنگ ہماری نہیں بلکہ ایک مسلط کردہ ہے مگر اس کے باوجود پاکستان خطے میں پائیدار امن کیلئے ہر قسم کا تعاون کرنے کیلئے تیار ہے لیکن کسی دباؤ کے نتیجے میں نہیں بلکہ خطے میں استحکام کیلئے نیک نیتی سے اپنا کردار ادا کررہاہے ۔
دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے مشیر قومی سلامتی پاکستان ناصر خان جنجوعہ کے ساتھ ملاقات کے دوران ایک مثبت بیان دیتے ہوئے کہاکہ ہمیں جنگ جیتنی نہیں ہے بلکہ اسے ختم کرنا ہے جس پر دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے اور ساتھ ہی پاکستانی وزیراعظم کو دورے کی دعوت دیتے ہوئے کہاکہ ماضی کو چھوڑ کر آگے بڑھنے اور امن کے حصول کیلئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہائیوں پر محیط اس جنگ نے خطے کے ممالک کو بہت نقصانات پہنچانے کے ساتھ ان کی خوشحالی کی رفتار کو سست کردیا ہے جس کی وجہ سے معاشی اہداف حاصل نہیں ہوپارہے۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ بدگمانی اور الزامات کی بجائے پاک افغان تعلقات کو مضبوط کرنے پر زوردیاجائے ۔
دونوں ممالک کے درمیان سیاسی،دفاعی سمیت دیگراہم امور پربات چیت کی اشد ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک مل کر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مشترکہ طور پر کوشش کریں تبھی اس میں کامیابی حاصل ہوگی ۔دونوں ممالک کے خطے میں یکساں مفادات ہیں کوئی تیسرا ملک یہاں وہ کردار ادا نہیں کرسکتا جو پاکستان اور افغانستان مل کر کرسکتے ہیں۔
اس لئے معاملات کو سلجھانے پر زور دیاجائے تاکہ پرامن ماحول میں دونوں ممالک اپنی ترقی پر توجہ دے سکیں اور اپنی تواناہی کو جنگ کی بجائے اپنی عوام کی خوشحالی کے لیے استعمال کرسکیں۔
پاک افغان تعلقات میں بہتری کے آثار
وقتِ اشاعت : March 20 – 2018