مسلم لیگ ن 2013ء میں بھاری اکثریت لیکر حکومت بنانے میں کامیاب تو ہوگئی مگرکچھ ہی عرصے بعد مختلف قیاس آرائیاں سامنے آنے لگیں کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرپائے گی ، یہ افواہیں بھی باز گشت کرنے لگیں کہ اداروں کے درمیان معاملات ٹھیک نہیں چل رہے اور ملک میں مارشل لاء لگنے کے قوی امکانات ہیں خاص اس وقت جب ملک کے مختلف شہروں میں سابق آرمی چیف (ر)جنرل راحیل شریف کی تصاویراور پوسٹرز شاہراہوں پر آویزاں کی گئیں۔
ان کی مدت ملازمت ختم ہونے والی تھی اور اس میں توسیع کی بھی پیشکش کی گئی مگر سابق آرمی چیف نے ریٹائرمنٹ لے لی اور اس دوران ملک میں سب سے زیادہ مقبولیت سابق آرمی چیف جنرل(ر) راحیل شریف کی رہی اور یہی خدشات گردش کررہی تھیں کہ ماضی کی تاریخ پھر دہراہی جائے گی ایک بار پھر ملک میں مارشل لاء لگ جائے گا ۔
اس دوران اسلام آباد میں دو سیاسی جماعتوں نے حکومت کے خلاف دھرنا بھی دے رکھا تھا اور کچھ عناصرنے سرکاری ٹیلیوژن پرحملہ بھی کیا اور اسے نقصان پہنچایا پھر یہ افواہیں بھی گرم رہیں کہ پارلیمنٹ کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔خیر جن سیاسی جماعتوں نے دھرنا دے رکھا تھا ۔
انہوں نے سرکاری ٹی وی پر حملہ سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے کارکنان اس عمل میں شریک نہیں تھے ہمارا احتجاج صرف حکومتی کرپشن کے خلاف ہے یہ وقت بھی گزر گیا مگر جیسے ہی پانامہ کیس سامنے آیا ، ایک بارپھر یہ باتیں زور پکڑنے لگیں کہ موجودہ حکومت کا بچنا شاید مشکل ہو اور اس دوران پانامہ کیس کی سماعت شروع ہوگئی جس میں ن لیگ کے سربراہ وسابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کیا ۔
کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری رہی اور نواز شریف کو اقامہ پر نااہل قرار دیا گیا، نااہلی کے بعدنواز شریف کو سیاسی حوالے سے اہل قرار دینے کیلئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی گئی اور اکثریت کے ساتھ یہ بل پاس ہوگیا کہ نواز شریف ایک بار پھر سیاسی جماعت کے سربراہ بن گئے مگر بعد ازاں سپریم کورٹ نے انہیں تاحیات نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنادیا جس کے بعد اداروں کے درمیان ایک ٹکراؤ کا ماحول پیدا ہوا جو تاہنوز جاری ہے ۔
مگر حکومتی ارکان اسے ٹکراؤ کہنے سے انکاری ہیں ان کا مؤقف ہے کہ وہ قانونی جنگ لڑرہے ہیں لیکن یہ جنگ براہ راست اداروں کے درمیان چل رہی ہے۔ بلوچستان میں حکومتی تبدیلی نے ملکی سیاست میں ایک نئی بحث چھیڑ دی حکومتی تبدیلی کو مختلف تناظر میں دیکھاجارہا تھا اور اس تبدیلی کو بھی غیر جمہوری قوتوں سے جوڑنے کی باتیں کی گئیں مگر ن لیگ کے منحرف ارکان کاکہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت نے بلوچستان کے فیصلوں پر انہیں اعتمادمیں نہیں لیا ۔
مری معاہدے سے لیکر دیگر اہم نوعیت کے فیصلوں میں چند شخصیات سے ہی مشاورت کی گئی جبکہ بلوچستان کے منتخب نمائندوں کو دیوار سے لگایا گیا۔ بہرحال ا س تمام صورتحال پر یہی تاثر دیاجارہا تھا کہ موجودہ حکومت مدت پوری ہونے سے قبل ہی ختم ہوجائے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ سینیٹ انتخابات بھی اپنے وقت پر ہی ہوئے۔ حال ہی میں مسلم لیگ عوامی کے سربراہ شیخ رشید نے ملک میں جوڈیشل مارشل لاء کی بات کی، اس بیان پر بھی سیاسی جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ملک میں جوڈیشل مارشل لاء لگائے جانے کی باتوں کو افواہ قرار دیتے ہوئے ردکر دیا اور کہا کہ ملک کے آئین میں اس قسم کے نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے جب تک وہ چیف جسٹس کے عہدے پر موجود ہیں ملک میں آمرانہ نظام نہیں لایا جا سکتا۔
آئین کسی جوڈیشل مارشل لاء کی اجازت نہیں دیتا۔چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا ہے کہ انہوں نے آئین پاکستان کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے اور وہ کسی صورت اس حلف سے رو گردانی نہیں کریں گے۔
ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بنانے اورآئین سے ہٹ کر کسی اقدام کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔چیف جسٹس نے اس امید کا اظہار کیا کہ ملک میں آئندہ انتخابات ہر سطح پر غیر جانبدارانہ اور منصفانہ کرائے جائیں گے اور مستقبل کی منتخب حکومت آئین کی روح کے مطابق قائم ہوگی۔
دوسری طرف سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دئیے جانے والے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے نگران وزیر اعظم کے اختیارات کو واضح کرنے کے لیے آئینی ترمیم کی تجویز پیش کی ہے۔آئین نگران وزیر اعظم کے اختیارات کے بارے میں واضح نہیں ہے اور ان کو واضح کیے جانے کی ضرورت ہے۔
میاں نواز شریف نے اداروں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بات بھی کی ہے بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے لب و لہجے میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ نگران وزیر اعظم اور نگران وزیر اعلیٰ کے اختیارت کو واضح کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کریں۔
واضح رہے کہ موجودہ حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت دو ماہ بعد ختم ہو رہی ہے اور اس کے بعد آئندہ انتخابات کے لیے حکومت اور حزب اختلاف کی مشاورت سے وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتیں قائم کی جائیں گی۔ ان تمام کشیدہ حالات کے باوجود یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سیاسی جماعتوں سمیت ملکی ادارے جمہوریت کا تسلسل چاہتے ہیں ۔عام انتخابات سے قبل حکومتی خاتمے کے متعلق افواہیں دم توڑچکی ہیں کیونکہ ملک اب مزید کسی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔