|

وقتِ اشاعت :   March 29 – 2018

پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ہم وہ نہیں جو امپائر کی انگلی کی طرف دیکھیں بلکہ انگوٹھے کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔گزشتہ روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے نواز شریف کا کہناتھا کہ انہیں کسی سگنل کا انتظار نہیں اور نہ وہ سگنل لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اداروں کے ساتھ بیٹھنے کی بات جمہوریت اور قانون کے لیے کی تھی اور ہم نے جمہوریت کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے 2011 میں سامنے آنے والے میمو گیٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب میمو گیٹ زرداری پر بنا تو مجھے ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا۔ کیس کسی پر بھی بنائے جا سکتے ہیں بنتے رہے ہیں اور بن رہے ہیں۔

2011 میں امریکی افواج کی اعلیٰ کمان کو لکھے گئے متنازع خط سے متعلق مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی اور وہ خود کر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے۔

نوازشریف کا کہنا تھا کہ مشرف مکے دکھاتے تھے اور کہتے تھے کہ نواز شریف اور بینظیر کو پاکستان نہیں آنے دوں گا وہ آج خود کہاں ہے؟ ان کے خلاف غداری کیس شروع ہوا تو بیماری کا بہانہ کر کے ہسپتال میں چھپ گئے۔

اس وقت پیپلز پارٹی نے کہا تھا کہ میاں نواز شریف ملک کے منتخب صدر آصف علی زرداری پر غداری کا مقدمہ بنوانا چاہتے ہیں۔سابق فوجی صدر کے بیرون ملک جانے میں اس وقت فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے کردار کے بارے میں پوچھے گئے ۔

ایک سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ وہ وقت آنے پر سب بتادیں گے۔سابق وزیراعظم نے آئندہ انتخابات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں چاہتے اور کسی اور سے بھی ایک گھنٹے کی تاخیر ہونے پر ساتھ نہیں دیں گے۔

نگران وزیراعظم کے حوالے سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے بات ہوئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ سیاست دان مل بیٹھ کر نگران وزیراعظم کا فیصلہ کریں۔سیاسی تجزیہ کاروں کاکہنا ہے کہ ملک میں سیاسی اختلافات سے دو قدم آگے بڑھ کر سیاستدانوں کا کردار رہا ہے جس کی وجہ سے ہم سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہوئے اور پارلیمانی نظام انتہائی کمزور رہا ہے ۔حکمران واپوزیشن جماعتیں 70 سالوں کے دوران بہترین قومی پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہیں۔

ممالک کی ترقی مضبوط پارلیمانی و سیاسی نظام سے ہی ممکن ہے بدقسمتی سے ہمارے یہاں انتقامی کارروائی اور اقتدار تک رسائی ہی کو اولین ترجیح دی گئی۔ گزشتہ روز میاں نواز شریف اپنے ہی عمل پر پشیمان نظرآئے مگر سیاسی فیصلوں میں وقت کی اہمیت ہوتی ہے میاں نواز شریف کا بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ انہوں نے ماضی میں غلط فیصلے کئے جس کا خمیاز ہ آج وہ بھگت رہے ہیں ۔ 2008

ء کے دوران ایک مضبوط اپوزیشن ملک میں موجود تھی جس کی قیادت بھی میاں محمد نواز شریف کررہے تھے جب عام انتخابات کے متعلق اہم فیصلے ہونے جارہے تھے لندن کانفرنس میں ن لیگ کی قیادت میں ملک کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں متحد تھیں اس میں فیصلہ کیا گیا کہ پرویز مشرف کی صدارت میں عام انتخابات میں حصہ نہیں لیاجائے گا ۔

صرف واحد جماعت پاکستان پیپلزپارٹی تھی جس نے اس فیصلے پر اپنے تحفظات کااظہار کیا تھا دیگر جماعتوں نے میاں محمد نوازشریف کا ساتھ دیا مگر ن لیگ اپنے ہی فیصلے کے خلاف گئی اور عام انتخابات میں حصہ لیا ۔

اس طرح دیگر جماعتیں انتخابات میں حصہ لینے سے رہ گئیں نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک نہ حکومتی سطح پر گڈگورننس قائم رہی اور نہ ہی بہترین اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی اتحاد سامنے آرہی ہے ۔

میاں محمد نواز شریف کے متعلق کیسز کا تعلق ان حالات سے قطعی طور پر نہیں جوڑا جاسکتا کیونکہ یہ کرپشن کا معاملہ ہے اورسزا وجزا سب کیلئے یکساں ہونا چاہئے حکمران بھی جوابدہ ہیں اوروہ بھی قانون سے بالاتر نہیں ہیں۔