اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک کیس کی سماعت میں مکالمے کے دوران وزیر اعظم سے ملاقات کے حوالے سے کہا کہ ہم نے میٹنگ میں کھویا کچھ نہیں بلکہ پایا ہی پایاہے، آنے والے فریاد سنانے آئے تھے ہم نے کچھ نہیں دیا۔
سپریم کورٹ میں مری تعمیرات ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار اور وکیل لطیف کھوسہ کے درمیان وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات پر مکالمہ ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے میٹنگ میں کھویا کچھ نہیں بلکہ پایا ہی پایاہے، آنے والے فریاد سنانے آئے تھے ہم نے کچھ نہیں دیا، آپ اس ادارے اوراپنے بڑے بھائی پر اعتماد کریں،کبھی آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ تو جسٹس عبدالرشید والی صورتحال تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس عبدالرشید کو بلایا گیا تھا لیکن یہاں وزیراعظم میرے پاس چل کرآئے، جب مجھے بلایا گیا تو میں نہیں گیا بلکہ ان سے کہا یہاں آجائیں، روزانہ کئی سائل آتے ہیں کسی کو روکتا نہیں، کسی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے، پتہ نہیں کسی کو کیا تکلیف ہو۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ان کو جو تکلیف ہے وہ سب کومعلوم ہے۔
’’عدلیہ پر جائز تنقید کرنی چاہیے‘‘
بعد ازاں سپریم کورٹ میں سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر آئے افسران سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اور وکیل نعیم بخاری کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا، چیف جسٹس نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ ٹی وی پر بیٹھ کر آپ بھی بہت باتیں کرتے ہیں، عدلیہ پر جو جائز تنقید ہے کرنی چاہیے، اس سے ہماری اصلاح ہوگی، گزشتہ روز کسی نے کراچی میں چیف جسٹس آف پاکستان کے لگے اشتہارات بارے بات کی، ان کو یہ نہیں معلوم کہ میں نے خود وہ اشتہارات ہٹانے کا حکم دے رکھا ہے، اگر میں آج پابندی لگا دوں تو بہت سے لوگوں کا کام بند ہو جائے گا۔
’’نا جوڈیشل این آر او اور نا ہی جوڈیشل مارشل لا‘‘
نعیم بخاری نے پوچھا کہ جوڈیشل مارشل لاء کے بارے میں بہت باتیں ہو رہی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میں کہوں کچھ نہیں آ رہا تو پھر آپ کیا کہیں گے، ملک میں نا جوڈیشل این آر او اور نا ہی جوڈیشل مارشل لا آ رہا ہے، ملک میں صرف آئین اور جمہوریت رہے گی باقی کچھ نہیں ہوگا۔